Headlines
Loading...
اللہ تعالی کی شان میں لفظ فساد کہنا کیسا ہے؟

اللہ تعالی کی شان میں لفظ فساد کہنا کیسا ہے؟


اللہ تعالی کی شان میں لفظ فساد کہنا کیسا ہے؟

★اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎★

📜السوال__________↓↓↓ اگر کسی نے فساد الرحمن کہا يعنى اللّٰہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ کوئی فساد لگائے تو اسکے لیے کیا حکم ہے شریعت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں

🖊السائل عارف رضا کانپوری یوپی★  

 ◆ـــــــــــــــــــــــ🌼🌻🌼ــــــــــــــــــــــــ◆

★وَعَلَيْكُم السـَّلَام وَرَحمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ★‎

الجواب بعون الملک الوھاب

صورت مستفسرہ میں اگر حقیقت یہی ہے جیسا کہ سوال میں درج ہے اللہ تعالی ہر کمال وخوبی کا جامع ہے، اور ہر اس چیز سے جس میں عیب ونقصان ہے پاک ہے یعنی عیب ونقصان کا اس میں ہونا محال ہے بلکہ جس بات میں نہ کمال ہو نہ نقصان وہ بھی اس کے لیے محال مثلا جھوٹ دغا خیانت ظلم جہل بے حیائ وغیرہا عیوب اس پر قطعا محال ہیں فساد کے لغوی معنی آتے ہیں فتنہ بدی خرابی بد اخلاقی گناہ غنڈا گردی وغیرہ تو اللہ تعالی کی شان میں لفظ فساد کہنے کا معنی و مفہوم و مطلب یہ کہ اللہ تعالی غنڈہ گرد ہےبد اخلاق ہےبہر حال شخص مذکور نے چوں کے اللہ تعالی کی طرف فساد{یعنی بدی خرابی بد اخلاق غنڈہ گردی وغیرہ} کی نسبت کی ہے جب کہ اللہ تعالی ان مذکورہ صفات رذیلہ سے پاک و منزہ ہےلہذا شخص مذکوراللہ تعالی کی طرف کفریہ کلمات کی نسبت کرنے کی وجہ سے کافر ہوگیا اب اس پہ توبہ وتجدید ایمان ضروری ہے اگر بیوی والا ہو تو تجدید نکاح بھی کرے اور عہد کرے کہ آنئدہ اس طرح کے کفر ی الفاظ نہیں کہے گا اگر وہ ایسا نہ کرے تو مسلمان اس کا سماجی بائیکاٹ کریں کیوں کہ ہر وہ قول یا فعل جس کا مقصد اللہ تبارک وتعالیٰ کی تنقیص وتوہین ہو کفر ہےاس سلسلے میں مسلمانوں کا کوئی اختلاف نہیں ہےخواہ سنجیدہ طور پرہو استہزا ہو یا کھیل ہنسی اور مذاق ،یا غفلت اور جہالت کے طور پر ہو اس میں لوگوں کے نیتوں اور مقاصد کے درمیان کوئی فرق نہیں،کیونکہ ظاہر چیز کا ہی اعتبار کیا جاتا ہے

(📚مسامرہ شرح مسایرہ ص٣٩٣ میں ہے (یستحیل علیہ) سبحانہ (صفات النقص کالجھل والکذب )بل یستحیل علیہ کل صفة لا کمال فیھا ولا نقص لان کلا من صفات الإله صفة كمال انظر للتفصل المسامرة بشرح المسایرة والتفقو علی ان غیر واقع ص ٣٠٤ ـ ٢١٠ والفتاوی الرضویة ج ۱۵ ص ۳۲۰ ـ ۳۲۲ )

اللہ تعالی کا ارشاد ہے واماینسینک الشیطن فلا تقعد بعد الذکری مع القوم الظلمین الخ پارہ ۷ رکوع ۱۴)

حدیث شریف میں ہے التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ}

(📗مشکوة شريف جلد اول ص ۲۰۶)

واللہ اعلم بالصواب 

کتبہ حضرت علامہ مولانا محمد نوشاد عالم صاحب قبلہ مد ظلہ العالی والنورانی کٹیہار مقیم حال مالدہ مغربی بنگال 

🗂 مؤرخہ:👈(۸)رمضان المبارک (۱۴۴۱)ھجری (۲)مئی(۲۰۲۰)عیسوی بروز شنبہ

شائع کردہ سنی مسائل شرعیہ گروپ 

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ