سوال
السلام علیکم ورحمتہ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ
سوال: زید کے تین لڑکے ہیں جن میں دو لڑکے بے ادب ہیں گالی دیتے ہیں بات نہیں کرتے خرچ کے لیے پیسہ نہیں دیتے تو زید انہیں اپنی پروپٹی سے بےدخل کر سکتا ہے شرعا پکڑ تو نہیں ہو گی؟
المستفی محمد تابش رضا آلہ باد یوپی
جواب
جس طرح اولاد پر والد کے کچھ حقوق شریعت نے مقرر فرماے اسی طرح والد پر اولاد کے بھی کچھ حقوق مقرر فرماے
جیسا کہ حدیث شریف میں آیا کہ ابن نجار نے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں
باپ کے ذمہ بھی اولاد کے حقوق ہیں جس طرح اولاد کے ذمہ باپ کے حقوق ہیں
(کنز العمال, کتاب النکاح,ج۱۶,ص۱۸۴ )
اب ان حقوق کی سلسلہ میں فرمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ فرمائیں
۱ طبرانی نے عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
اپنی اولاد کو برابر دو اگر میں کسی کو فضیلت دیتا تو لڑکیوں کو فضیلت دیتا
(المعجم الکبیر,ج۱۱,ص۲۸۰)
۲ طبرانی نے نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنھما سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
کہ عطیہ میں اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو جس طرح تم خود یہ چاہتے ہو کہ وہ سب تمہارے ساتھ احسان ومہربانی میں عدل کریں
(کنز العمال,ج۱۶,ص۱۸۴)
۳ ابن نجار نے نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنھما سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
اللہ تعالی اسکو پسند فرماتا ہے کہ تم اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو یہاں تک کہ بوسہ لینے میں
(المرجع السابق)
اسی طرح ان حقوق کے سلسلہ میں اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے ایک رسالہ بنام 'مشعلۃ الارشاد فی حقوق الاولاد
تحریر فرمایا جس میں صحیح احادیث سے ۸۰ حقوق ذکر فرماے
من جملہ
اپنے چند بچے ہوں تو انہیں کوئی چیز دے تو سب کو برابر دے ایک کو دوسرے پر بے فضیلت دینی ترجیح نہ دے"
"انہیں میراث سے محروم نہ کرے"
"اپنے بعد مرگ بھی انکی فکر رکھے یعنی دو تہائی ترکہ چھوڑ جاے ثلث سے زیادہ خیرات نہ کرے
آخر میں فرماتے ہیں
ان میں اکثر تو مستحبات ہیں جن کے چھوڑنے پر اصلا مواخذہ نہیں اور بعض آخرت میں مطالبہ ہوں مگر دنیا میں بیٹے کے لے باپ پر جبر وگرفت نہیں نہ بیٹے کو جائز کہ باپ سے جدال ونزاع کرے سوا چند حقوق کے
(ج٢٤،ص٤٥٧)
نیز اسی میں ہے
رہا باپ کا اولاد کو اپنی میراث سے محروم کرنا وہ اگر یوں ہو کہ زبان سے لاکھ بار کہے کہ میں نے اسے محروم الارث کر دیا یا میرے مال میں اس کا کچھ حق نہیں یا میرے ترکہ سے اسے کچھ حصہ نہ دیا جائے یا خیال جہال کا وہ لفظ بے اصل کہ میں نے اسے عاق کیا یا انہیں مضامین کی لاکھ تحریریں لکھے رجسٹریاں کرائے یا اپنا کل مال اپنے فلاں وارث یا کسی غیر کو ملنے کی وصیت کر جائے ایسی ہزار تدبیریں ہوں کچھ کارگر نہیں نہ ہرگز وہ ان وجوہ سے محروم الارث ہو سکے کہ میراث حق مقرر فرمودہ رب العزت جل وعلا ہے جو خود لینے والے کے اسقاط سے ساقط نہیں ہو سکتا بلکہ جبراً دلایا جائے گا اگرچہ وہ لاکھ کہتا رہے کہ مجھے اپنی وراثت منظور نہیں۔ میں حصہ کا مالک نہیں بنتا میں نے اپنا حق ساقط کیا پھر دوسرا کیوں کر ساقط کر سکتا ہے
قال اللّٰہ تعالٰی
یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ
اشباہ میں ہے
لوقال الوارث ترکت حقی لم یبطل حقہ غرض
بالقصد محروم کرنے کی کوئی سبیل نہیں۔ ہاں! اگر حالت صحت میں اپنا مال اپنی ملک سے زائل کر دے تو وارث کچھ نہ پائے گا کہ جب ترکہ ہی نہیں تو میراث کا ہے کی جاری ہو مگر اس قصد ناپاک سے جو فعل کرے گا عنداللہ گنہگار و ماخوذ رہے گا
حدیث شریف میں ہے حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں
من فرمن میراث وارثہ قطع اللّٰہ میراثہ من الجنۃ یوم القیامۃ
جو اپنے وارث کو اپنا ترکہ پہنچانے سے بھاگے اللہ تعالیٰ روز قیامت اس کی میراث جنت سے قطع فرما دے گا
رواہ ابن ماجہ عن انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ
(فتاویٰ رضویہ جلد ہفتم ص ۳۲۵)
لہذا باپ کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے بیٹے کو میراث سے محروم کردے وہ بھی سزا کے طور پر کہ اس پر جنت سے محرومی کی وعید آئی ہے اور اگر کرے تو اس کے محروم کرنے سے محروم نہ ہوگا۔
البتہ باپ کی توہیں کرنے والے فاسق وفاجر عاق سخت عذاب وغضب الہی کے مستحق ہیں جب تک باپ کو راضی نہ کریں ان کا کوئی فرض نفل اور نیک عمل اصلا قبول نہیں عذاب آخرت کے سوا دنیا ہی میں سخت بلا نازل ہوگی اور مرتے وقت معاذاللہ کلمہ نہ نصیب ہونے کا خوف ہے مگر اس کے سبب باپ کو جائز نہیں کہ گناہ کا کام کرے
ایسا ہی اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں محقق مسائل جدیدہ مفتی نظام الدین صاحب رضوی نے فرمایا
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
کتبہ شان محمد المصباحی القادری
مقام قنوج یوپی
0 Comments:
براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ