Headlines
Loading...
دونوں خطبہ کے درمیان بیٹھنا کیسا ہے

دونوں خطبہ کے درمیان بیٹھنا کیسا ہے

 السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 
١) جمعہ اور عیدین کے خطبہ کے درمیان کیوں بیٹھتے ہیں؟

٢) اور مزدلفہ میں مغرب اور عشا ملا کے کیوں پڑھتے ہیں، اسکا پسمنظر کیا ہے؟؟

براے مہربانی جواب عنایت کریں؟
اور کوی گستاخی ہوی ہو تو معاف فرمادیں🙏

وعلیکم السلام ورحمةالله وبركاته
  الجواب بعون الملک الوھاب :
 {١}: صورت مسؤلہ متذکرہ میں حکم یہ ہے کہ خطیب کا جمعہ کے اندر دو خطبوں کے درمیان بیٹھنا سنت ہے، اور یہی جمہور کا قول ہے ،اب یہ کہ اس قعدہ کی حکمت وغرض کیا ہے؟ ،اس پر اہل علم کے مختلف اقوال ہیں ،کچھ کا کہنا ہے کہ یہ قعدہ محض فصل کرنے کے لیے تھا ،جب کہ کچھ دوسرے کہتے ہیں کہ راحت کے لیے وقفہ تھا ،لیکن علامہ ابن حجر عسقلانی رحمةالله عليه نے فتح الباری کے اندر قول اول ہی کو راجح قرار دیا ہے _ قال الحافظ ابن حجر رحمه الله : " واختلف في حكمتها ، فقيل : للفصل بين الخطبتين ، وقيل : للراحة ، وعلى الأول وهو الأظهر يكفي السكوت بقدرها " انتهى من " { فتح الباري،شرح صحیح البخاری ٢/٥١٦ } ، .
یہی قول "ارشاد الساری" میں حضرت علامہ خطیب احمد قسطلانی نے بھی لکھا ہے کہ :" ولم یشترط الحنفیة والمالکیة والحنابلة هذہ القعدة، إنما قالوا بسنيتها للفصل بين الخطبتين ، ويستحب أن يكون جلوسه بينهما قدر سورة الاخلاص تقريبا لاتباع السلف و الخلف ،وأن يقرأ فيه شيأ من كتاب الله للاتباع رواه ابن حبان ، ایسا ہی عمدة القارى کے اندر ہے،اور سیدی سرکار اعلی حضرت بھی جب دوخطبوں کے درمیان جلوس فرماتے تو سورۂ اخلاص پڑھا کرتے تھے.
{٢}: قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ ہر نماز کو اس کے وقت پر ہی ادا کرناچاہیے۔ یہی شریعت اسلامیہ میں مطلوب ہے، البتہ حجاج کرام کے لیے عرفات میں ظہروعصر کی حقیقی جمع اور مزدلفہ میں مغرب وعشاء کی حقیقی جمع متواتر احادیث سے ثابت ہے اور پوری امت کا اس پر اجماع ہے؛ لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات اور مزدلفہ کے علاوہ کبھی بھی حقیقی جمع کی صورت میں دو نمازوں کو اکٹھا کرکے نہیں پڑھا، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ نماز وقت پر پڑھتے تھے؛ لیکن[حجة الوداع میں]آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں ظہر وعصر کو ظہر کے وقت میں جمع کرکے پڑھا اور مزدلفہ میں مغرب وعشاء کو عشاء کے وقت میں جمع کرکے پڑھا۔ { سنن نسائ }_اب رہا سوال مزدلفہ کے اندر مغرب وعشاء کو کیوں جمع فرمایا اس کے اندر کیا حکمت پوشیدہ ہے تو اس کے متعلق مصباح الفقہاء حضرت مفتی عالمگیر رضوی مصباحی صاحب ردالمحتار و درالمختار کے حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں : عرفات شریف سے اگر حاجی مزدلفہ کے علاوہ کسی اور راستے سے منی یا مکہ معظمہ چلا جاے تو اس حاجی پر شرعا لازم ہے کہ نماز مغرب وقت مغرب ہی میں پڑھے , اور نماز عشاء وقت عشاء ہی میں پڑھے اور جب ان دونوں نمازوں میں سے ہر ایک نماز صورت مذکورہ میں اپنے اپنے ہی وقت میں پڑھنا شرعاواجب و لازم ہے تو ان دونوں نمازوں کو جمع کرنا شرعا ناجائز وگناہ ہے_ درمختار فوق ردالمحتار ٩/٤٠ پر ہے " ولو صلی المغرب والعشاء فی الطریق او فی عرفات اعادہ " اسی عبارت کے تحت خاتم المحققین حضرت علامہ محمد ابن عابدین شامی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں : قلت: ویوخذ ھذا من اشتراط المکان لصحةھذا الجمع کمامر ویاتی وانہ یفید انہ لو لم یمر علی المزدلفة لزم صلاة المغرب فی الطریق فی وقتھا وکذا لو بات فی عرفة " تصریحات بالا سے یہ بات واضح ہوگئ کہ عند التحقیق مزدلفہ میں نماز مغرب اورعشاء کے جمع کرنے کی علت صرف اور صرف یہ ہے کہ عرفات سےمزدلفہ میں آنا ._ ھذا ماظھر لی والعلم الاتم عند ربی عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وسلم _
               کتبہ
گداے حضور حافظ ملت محمـــد رضـاء المصطفــی مصبــاحی
١٣ جمادی الآخر ١٤٤٠ھ
اسلامی معلومات گروپ 

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ