Headlines
Loading...
کافرکے ہاتھ کا کھانا کھانا کیسا

کافرکے ہاتھ کا کھانا کھانا کیسا

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
 کافر کے ہاتھ کا کھانا کیسا ہیں براٸے مہربانی جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائے کرم ہوگا

ساٸلہ:👈 ریشمہ بانو مہاراشٹر 


وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ

*✍📖الجـــــــــــــــــوابــــــــــــــــــــــــــــ :👇*
مسلمان کے لیے غیرمسلم کے ہاتھ سے پکا ہوا کھانا کھانا جائز ہے بشرطیکہ اس کے ہاتھ میں نجاست اور حرام اشیاء نہ لگی ہو البتہ ایسے غیرمسلم جو اہل کتاب میں سے نہ ہو اس کے ہاتھ کا ذبیحہ جائز نہیں ہے اگر کسی غیرکتابی نے کوئی حلال جانور بھی ذبح کیا تو اس کا گوشت مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے حرام ہے۔کیونکہ غیراہل کتاب ذبح کرتے وقت اللہ کا نام نہیں لیتے اس لیے ان کا ذبیحہ حرام ہے چاہے اسے کوئی ہندو پکائے یا مسلمان اگر جانور کو مسلمان یا اہل کتاب نے ذبح کیا اور ہندو نے پکایا تو پھر کھانا جائز ہے جہاں تک احتیاط اور نظافت کی بات ہے تو ایسے مسلمان سے پکوانا چاہئے جو پاک صاف رہتا ہو زیادہ بہتر ہے_
_*{📖الْمَآئِدَة:٥/٥}👇*_
_الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُم
 _*{📕مشكوة ٤/٢٥}*_
وعن قبيصة بن هلب عن أبيه قال : سألت النبي صلى الله عليه و سلم عن طعام النصارى وفي رواية : سأله رجل فقال إن من الطعام طعاما أتحرج منه فقال لا يتخلجن في صدرك شيء ضارعت فيه النصرانية رواه الترمذي وأبو داود
_*{📗فتاوی عالمگیری ٣٤٧/٥}*_
ولا بأس بطعام اليهودوالنصارى كله من ذبائح وغيرها ويستوى الجواب بين أن يكون اليهود والنصارى من أهل الحرب الخ
_*{📘ابن كثير٣٤٦/٢}*_
وأما نجاسة بدنه فالجمهور على انه ليس بنجس البدن والذات لأن الله تعالى احل طعام أهل الكتاب
 _*{📕فتاوی عالمگیری ٣٤٧/٥}*_⏳قال محمد رحمه الله:ويكره الأكل والشرب في أواني المشركين قبل الغسل و مع هذا لو أكل أو شرب منها قبل الغسل جاز، ولا يكون أكثر أكلا ولا شاربا حراماً، وهذا إذا لم يعلم بنجاسة الأواني
_*{📒فتاوی عالمگیری ٣٤٧/٥}ولا بأس بالذهاب إلى ضيافة أهل الذمة*_
اور اسی طرح اگر ہندو کے برتن پاک ہوں اور یقین ہو کہ وہ کوئی غلط چیز استعمال نہیں کرتا تو اس کا کھانا کھانا جائز ہے اگر علم نہ ہو تو اس میں کراہت ہے، لیکن کھالیا تو وہ حرام نہیں ہوگا، اور اگر علم ہو کہ وہ کھانے پینے_ _کی چیزوں میں نجس چیز ملاتا ہے یا اس کے برتن ناپاک ہیں تو ایسی صورت میں کھانا جائز نہیں ہے جیسا کہ
_*📙الفتاوى الهندية میں مذکور ہے (5/ 347)*_
قال محمد رحمه الله ويكره الأكل والشرب في أواني المشركين قبل الغسل، ومع هذا لو أكل أو شرب فيها قبل الغسل جاز ولا يكون آكلاً ولا
شارباًحراماً، وهذا إذا لم يعلم بنجاسة الأواني فأما إذا علم فإنه لا يجوز أن يشرب ويأكل منها قبل الغسل ولو شرب أو أكل كان شارباً وآكلاً حراما

   والله اعلم بالصوب

کتبــــــــــــہ؛ :حضرت علامہ مولانا انیس الرحمٰن حنفی رضوی صاحب قبلہ

بــتاریـخ(١٧)محرمالحرام(١٤٤١)ھــجــــری

اســـــلامی مـــعــلـومات گــروپ

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ