شاگردوں سے خدمت کروانا کیسا ہے
السلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماٸے کرام و مفتیان کرام اس مسٸلہ ذیل کے بارے میں کہ استاد کو اپنے شاگردوں سے خدمت کروانا کیسا ہے جواب عنایت فرماکر شکریہ کا موقع عنایت کریں
ساٸل۔محمدقمرالدین قادری بمقام گیناپور ضلع بہراٸچ شریف یوپی
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون المک وھاب
استاذ کا بہت بڑا حق ہے ماں ، باپ سے زیادہ حقوق استاذ کے ہیں - اس لئے استاذ شاگردوں سے بغیر تعلیم کے نقصانات کے خدمت لے سکتا ہےجیساکہ صدرالشریعہ بدر الطریقہ علامہ امجد علی علیہ الرحمہ والرضوان اپنی مشہور زمانہ تصنیف (بہار شریعت حصہ شانزدہم ص ۱۹۲) میں رقمطراز ہیں - استاذ کا ادب کرے اس کے حقوق کی محافظت کرے اور مال سے اس کی خدمت کرے اور استاذ سے کوئی غلطی ہوجائے تو اس میں پیروی نہ کرےاستاذ کا حق ماں باپ اور دوسرے لوگوں سے زیادہ جانے اسکے ساتھ تواضع سے پیش آئے جب استاذ کے مکان پر جائے تو دروازہ پر دستک نہ دے بلکہ اس کے بر آمد ہونے کا انتظار کرے(بحوالہ عالمگیری بہارشریعت)جس طرح ماں باپ اپنے بچوں سے خدمت لیتے ہیں اسی طرح استاذ بھی اپنے شاگردوں سے خدمت لے سکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ بچہ نابالغ نہ ہو اس کی تعلیم کا نقصان نہ ہوتا ہو - یہاں تک ضروتا استاذ طالب علم کو ضروری سزا بھی دے سکتا ہے مگر اعتدال کے ساتھ جس کا مقصد اصلاح ہو - اور ایک دوسرے بچوں کے درمیان امتیاز نہ برتے(بہار شریعت حصہ شانزدہم ص ۱۹۱)
( واللّہ و رسولہ اعلم بالصواب)
حضرت علامہ و مولانا مفتی محمد رضا امجدی صاحب
0 Comments:
براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ