Headlines
Loading...
کیا کوئی ایسی حدیث ہے جس میں نیت زبان سے کہنے کا حکم ہو

کیا کوئی ایسی حدیث ہے جس میں نیت زبان سے کہنے کا حکم ہو


                السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

نماز کی نیت زبان سے کرنے کے تعلق سے کوئی حدیث ثابت ہے۔ یا نہیں یا یہ کس کی ایجاد ہے۔ جواب عنایت فرمائیں۔ 

   سائل۔محمد تنویر احمد قادری اسمٰعیلی۔بنارس
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
        وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

              الجواب بعون الملك الوهاب

میری نظر سے اس طرح کی کوئی حدیث نہ گزری جس میں نماز کی نیت زبان سے کرنے کا بیان ہو.اور نیت دل کے پکے ارادے کو کہتے ہیں، ہاں زبان سے کہنا مستحب ہےدرمختار میں ہے :النية بالاجماع وهي الارادةاسی کے تحت ردالمحتارمیں ہےالنية لغة العزم والعزم وهو الارادة الجازمة القاطعة(رد المحتار ج ٢ ص ٩٠)پھر آگے درمختار میں یہ ہے والتلفظ عند الارادة بها مستحب هوالمختار و تكون بلفظ الماضي ولو فارسيا لانه في الاغلب في الانشاءات، وتصح بالحال. قهستانى وقيل سنة يعني احبه السلف او سنه علماؤنا اذ لم ينقل عن المصطفى ولا الصحابة ولاالتابعين بل قيل بدعة ، وفي المحيط يقول اللهم اني اريد انا اصلي صلاة كذا فيسرها لي وتقبلها منياسی کے تحت رد المحتار میں ہےقوله : (بل قيل بدعة) نقله في الفتح . وقال في الحلية : ولعل الاشبهه انه بدعة حسنة(رد المحتار ج ٢ ص ٩٢ )فتح باب العناية میں ہے:(و مع اللفظ )أي والقصد مع التلفظ بما يدل عليه افضل منه بلا تلفظ ، لأن اللسان ترجمان الجنان، وهذا بدعة حسنة استحسنها المشايخ للتقوية، او لدفع الوسوسة۔(فتح باب العنایۃ جلد اول صفحہ ٢١٤)مذکورہ بالا فقہی عبارات سے واضح ہو گیا کہ نیت، دل کے پختہ ارادے کو کہتے ہیں ، ارادہ کرتے وقت زبان سے کہہ لینا مستحب ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ زبان سے کہہ لینا سنت ہے، مگر سنت سے مراد یہ ہے کہ اسلاف نے اس کو پسند کیا، یا علماء نے اس کو رائج کیا تو یہ مشائخ کا طریقہ ہوا کیونکہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ اور تابعین رضی اللہ عنہم سے منقول نہیں، محیط میں نیت کے الفاظ بھی مذکور ہے، کہ نیت کرتے وقت نمازی یوں کہے۔۔ اے اللہ میں فلاں نماز پڑھنے کا ارادہ کرتا ہوں ، تو تو اسے میرے لیے آسان فرما اور اس نماز کو میری جانب سے قبول فرما ۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ بدعت ہے۔ فتح القدیر اور حلیہ میں یہ بتایا گیا کہ بدعت سے مراد بدعت حسنہ ہے ۔ بلکہ فتح باب العنایۃ کی عبارت سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنے کے ساتھ قصدوارادہ کرنا ، بغیر تلفظ کے نیت کرنے سے افضل ہے کیوں کہ زبان، دل کی ترجمانی کرتی ہے۔صاحب عنایہ نے یہ بھی واضح کیا کہ دل سے پختہ ارادہ کے ساتھ، زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا، بدعت حسنہ ہے جس کو مشایخ نے قصد و ارادے کو تقویت دینے یا وسوسہ کو دفع کرنے کے موجب مستحسن قرار دیا۔ فقیہ اعظم ہند، حضور صدر الشریعہ، علامہ امجد علی علیہ الرحمہ نقل فرماتے ہیں: نیت دل کے پکے ارادہ کو کہتے ہیں ، محض جاننا نیت نہیں تا وقت یہ کہ ارادہ نہ ہوزبان سے کہہ لینا مستحب ہے اور اس میں کچھ عربی کی تخصیص نہیں ، فارسی وغیرہ میں بھی ہو سکتی ہے اور تلفظ میں ماضی کا صیغہ ہو، مثلاً نَوَیْتُ یا نیت کی میں نے ۔( بہارشریعت حصہ ٣ صفحہ ٤٩٢)اور رہا سائل کا یہ سوال کہ یہ کس کی ایجاد ہے ؟ تو فقیر کی نظر سے اس طرح کی کوئی عبارت نہ گذری جس میں موجد کے نام کی صراحت ہو البتہ دل سے پختہ ارادے کے ساتھ ،نیت کے الفاظ کو زبان سے ادا کرنے کا استحباب و استحسان ، ظاہر کتب فقہ حنفی سے ثابت اور مشائخ و اسلاف کے طریقے سے ظاہر و باہر ہے ۔

                 واللہ تعالی اعلم بالصواب 

کتبہ:- محمد شریف القادری امجدی شیرانی صدرالمدرسین دارالعلوم فیض سبحانی ، غوثیہ مارکیٹ، ممبرا ، مہاراشٹر۔

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ