Headlines
Loading...
محبت کی شادی کرنا از روئے شرع کیســـاھے ؟؟؟

محبت کی شادی کرنا از روئے شرع کیســـاھے ؟؟؟


          السلام و علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

سوال علماۓ کرام و مفتیان شرع متین کی بارگاہ میں ....کیا محبٌت کی شادی کرنا کیسا ہے اور زید کا کہنا ہے کی میں اپنی شادی ایسی لڑکی سے کرنا چاہتا ہوں کی جو لڑکی حافظہ ہو یا عالمہ ہو ....اور زید کے ماں باپ کہہ رہے ہیں کی نہیں اپنے ہی رشتہ داری میں ہی کرو اور وہ لڑکی نا عالمہ ہے نا حافظہ ہے.....تو ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیئے ... قرآن و حدیث کی روشنی مے جواب عنایت فرمائیں 

    سائل... شاکر علی ... ازہری .. سورت گجرات
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
          وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

             الجوابـــــ بعون الملکـــــ الوھاب

محبت کی شادی کرنا گویا کی شادی سے پہلے لڑکی سے ملنا ناجائز تعلقات رکھنا قرآن واحادیث کی روشنی میں ناجائز وحرام ہے اور ایسا نہ ہو یعنی ناجائزوحرام فعل نہ پایا گیا ہو صرف کسی لڑکی کے علم کی وجہ سے یا خوبصورتی کی وجہ سے محبت ہوگئی اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہے تو یہ درست وجائز ہے جبکہ اس کے والدین راضی ہوں چونکہ سوال.سے ظاہر ہے کہ والدین راضی نہیں ہیں تو ایسی صورت میں شادی نہ کرے اگرے گا تو شادی ہوجائے گی مگر گنہگار کیونکہ والدین کی اطاعت لازم ہے جیسا کہ اللہ تعالی جل شانہ قرآن مجید کے متفرق مقامات پر ارشاد فرماتا ہے وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ- اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو نیز ارشاد فرماتا ہے کہ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے (اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا.اور حدیث شریف میں ہے عن ابن عباس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ من الصبح مطیعاَ اللہ فی والدیہ أصبح لہ بابان مفتو حان من الجنتہ وان کان واحد فواجدا فوا جدا ومن الصبح عاصیہ للہ فی الوالدیہ أصبح لہ بابان مفتو حان من النار ان کان واحدا فوا حدا قال رجل وان ظلما قال وان ظلماہ وان ظلماہ وان ظلماہترجمہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اس حال میں صبح کی کہ ماں باپ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرماں بردار رہا تو اس کے لئے صبح ہی جنت کے دو دروازے کھل جاتے ہیں او اگر والدین میں سے ایک ہو تو ایک دروازہ کھلتا ہے اور جس نے اس حال میں صبح کی کہ والدین کے بارے میں خدائے تعالیٰ کا نافرمان بندہ رہا تو اس کے لئے جہنم کے دو دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اگر ایک ہو تو ایک کھول دیا جاتا ہے تو ایک شخص نے کہا کہ اگر ماں باپ ظلم کرے تو حضور نے فرمایا کہ اگر چہ ظلم کرےاگر چہ ظلم کرےاگر چہ ظلم کرے(انوارالحدیث)ایک دوسری حدیث ہے عن عبد اللہ بن عمر و قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رضی الرب فی رضی الوالد وسخط الوالد ترجمہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پروردگار کی خوشنودی باپ کی خوشنودی ہے اور پروردگار کی ناراضگی باپ کی ناراضگی ہے (ترمذی شریف)قرآن و حدیث کے مفہوم سے یہ صاف ظاہر ہے کہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا چاہیئےاور انہیں خوش رکھنا چاہئے کیونکہ ان کی ناراضگی میں رب کی ناراضگی ہے لہذا وہ کام کریں جس سے والدین راضی ہوں اور اگر اپنی مرضی سے کرلیا اور یہ والدین کو ناگوار گزرا یا انھیں تکلیف پہونچی اور طلاق دینے کا حکم دے دیا تو بیٹے پر لازم ہوگا کہ طلاق دے جیسا کہ سرکار فقیہ ملت علامہ جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ اگر والدین طلاق کا مطالبہ کریں تو اس پر طلاق دینا لازم ہے اور اگر طلاق نہیں دے گا تو والدین کا نا فرمان قرار دیا جائے گا اس لئے کہ طلاق امر مباحات میں سے ہےاور امر مباح میں والدین کی اطاعت لازم ہے(فتاوی فیض الرسول جلد دوم کتاب الطلاق 184)تو اس سے بہتر ہے کہ والدین کے کہنے پر والدین جہاں چاہتے ہیں وہی شادی کرے ہاں اگر عالمہ فاضلہ سے کرنے کا شوق بوجہ علم ہے تو بہتر ہے اس کے لئے والدین کو راضی کرلے اور اگر راضی نہ ہوں تو وہیں کرے جہاں وہ چاہیں

                واللّٰہ ورسولہ اعلم باالصواب

کتبہ ناچیز محمد شفیق رضا رضوی خطیب و امام سنّی مسجد حضرت منصور شاہ رحمت اللہ علیہ بس اسٹاپ کشن پور الھند

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ