Headlines
Loading...
نکاح کے بعد شوہر کا انتقال ہو جائے تو کیا عورت عدت گزارے گی؟؟؟

نکاح کے بعد شوہر کا انتقال ہو جائے تو کیا عورت عدت گزارے گی؟؟؟


           السلام علیکم ورحمتہ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ  

 کیا فرما تے ہیں علماء عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بکر کا نکاح ہوا مسجد مین ہندہ کیساتھ راضی خوشی ...مگر ایک گھنٹے کے بعد بکر کا انتقال ہو گیا. بیوی نے شوہر کو نھی دیکھا اور نا شوہر نے بیوی کو آیا یہ کہ کیا بیوی عدت کے دن گزاریگی یا نھیں؟یا پھر دونوں کی ملاقات ہو ئی ساتھ میں بیٹھکر کھانا کھایا آپس میں گُفتگو ہوٸی شوہر نے بیوی کے رخسار کو بوسہ دیا بس۔۔آیا یہ کہ اب عدت ہے یا نھیں؟ کیاہندہ فوری طور پر دوسرے دن نکاح کرسکتی؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں 

            سائل ، محمد مظہر رضا کرناٹک
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
           وعلیکم السلام ورحمةاللہ وبرکاتہ

              الجواب بعون الملک الوھاب !! 

مذکورہ دونوں صورتوں میں ہندہ پر چار مہینےدس دن عدت فرض ہے۔ اس سے پہلے نکاح، بلکہ نکاح کی گفتگو بھی حرام ہے۔چاہے مدخولہ ہو یا غیر مدخولہ ،بالغہ ،ہو یا نابالغہ ۔۔کیوں کہ عورت اگر حاملہ ہےتو اس کی عدت وفات وضع حمل ہے بصورت دیگر اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔قرآن شریف سورہ طلاق میں ہے:”واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن“یعنی حمل والیوں کی عدت وضع حمل ہے۔پارہ دوم رکوع ١٤ میں ہے:”والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا یتربصن بانفسھن اربعةاشھر وعشرا“تم میں جو لوگ وفات پا جاٸیں اور بیبیاں چھوڑ کر جاٸیں ان کی عدت چار مہینے دس دن ہے۔فتاوی رضویہ مترجم جلد ١٣ صفحہ ٢٩٧ پر در مختار کے حوالہ سے ہے:”للموت اربعة اشھر وعشر مطلقا وطٸت او لا و لو صغیرة او کتابیةتحت مسلم ولو عبدا فلم یخرج عنھا الاالحامل“۔ترجمہ :موت کی عدت مطلقا چار ماہ دس دن ہے ۔بیوی مدخولہ ہو یا غیر مدخولہ اگر چہ نابالغہ ہو یا کتابیہ مسلمان آزاد کے نکاح میں ہو یا مسلمان غلام کے نکاح میں صرف حاملہ کا حکم اس سے علاحدہ ہے کہ اس کی عدت وضع حمل ہے۔واضح رہےکہ جس کے ساتھ خلوت صحیحہ نہ پاٸی گٸی ہو اگر اسے طلاق دے دی جاٸے تو اس کے لیے کوٸی عدت نہیں۔ اور غیر مدخولہ متوفیة الزوج کے لیے عدت واجب ہے اعلی حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمہ آگے، دونوں کے درمیان فرق کی علت و حکمت بیان کرتے ہوٸے رقم طراز ہیں:”عدت طلاق تعرف برأت رحم کے لیے ہے قبل خلوت برأت خود معلوم پھر عدت کیوں ہو۔اور عدت وفات میں صرف یہی مقصود نہیں بلکہ موت شوہر کا سوگ بھی۔ اور اس میں خلوت ہونے نہ ہونے کو کچھ دخل نہیں۔صدرالشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:”موت کی عدت چار ماہ دس دن ہے یعنی دسویں رات بھی گزر لے بشرطیکہ نکاح صحیح ہو ،دخول ہوا ہو یا نہیں دونوں کا حکم ایک ہے اگر چہ شوہر نابالغ ہو یا زوجہ نابالغہ ہو۔یونہی اگر شوہر مسلمان تھا اور عورت کتابیہ تو اس کی بھی یہی عدت ہے ۔مگر اس عدت میں شرط یہ ہے کہ عورت کو حمل نہ ہو۔ “(حصہ:٨ عدت کا بیان)مذکورہ بالا حوالہ جات سے روز روشن کی واضح ہو گیا کہ ہندہ مذکورہ پر چار ماہ دس دن کی عدت واجب ہے۔اس سے پہلے کسی مرد سے نکاح جاٸز نہیں ۔

                  واللہ تعالی اعلم بالصواب ۔

کتبہ :فقیر محمد کلیم نوری خادم مدرسہ اسلامیہ اہل سنت حشمت العلوم رامپور کٹرہ،ضلع بارہ بنکی۔(یو پی)٢٤/رمضان١٤٤١

1 تبصرہ

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ