آیت سجدہ کرنا فرض ہے یا واجب؟؟؟
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ سجدہ تلاوت کیا ہے اور اسکا کرنا فرض ہے یا سنت یا واجب اور ،آیت سجدہ کون کون ہیں۔۔ برائے مہربانی مکمل طور پر جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی
المستفتی عبد النبی یو پی الھند
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و برکاتہ ،
الجواب بعون اللہ التواب ،
سجدئہ تلاوت واجب ہے ، اگر تلاوت بیرون نماز ہوتو فورا واجب نہیں مستحب ہے اور نماز میں ہو تو فورا سجدہ کرنا واجب ہے ،تین آیت سے زائد تاخیر کرے گا تو گنگار ہو گا ۔درمختار میں ہے :هى على التراخى على المختار يكره تاخيرها تنزيها ،وان لم تكن صلاتیۃ فعلى الفور ليصرورتها جزء منها فيا ثم بتاخيرها یعنی: مختار یہی ہے کہ سجدہ تلاوت فی الفور لازم نہیں ہوتا اور اس کا مؤخر کرنا مکروہ تنزیہی ہے بشرطیکہ وہ نماز میں لازم نہ ہوا ہو ،اور اگر نماز میں لازم ہو تو فی الفور لازم ہوگا کیونکہ اب وہ نماز کا حصہ بن جائے گا اب اس کی تاخیر سے گناہ ہوگا ( باب سجود التلاوة جلد صفحہ 105 ) سرکار اعلی حضرت فرماتے ہیں : سجدہ صلوتیہ جس کا ادا کرنا نماز میں واجب ہو اس کا وجوب علی الفور ہے۔ ( فتاوی رضویہ مخرجہ ،ج 8 ،ص 233 ) علامہ صدر الشریعہ حضرت مفتی امجد علی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ،،آیت سجدہ ( نماز میں ) پڑھی ہو تو سجدۂ تلاوت کرناواجب ہے ( ملخصا بہار شریعت جلد اول صفحہ 521 مجلس المدینۃ العلمیہ دعوت اسلامی ) اسی میں ہے : آیت سجدہ بیرون نماز پڑھی تو فوراً سجدہ کر لینا واجب نہیں ہاں بہتر ہے کہ فوراً کر لے اور وضو ہو تو تاخیر مکروہِ تنزیہی۔اُس وقت اگر کسی وجہ سے سجدہ نہ کرسکے تو تلاوت کرنے والے اور سامع کو یہ کہہ لینا مستحب ہے سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ ۔ سجدۂ تلاوت نماز میں فوراً کرنا واجب ہے تاخیر کرے گا گنہگار ہو گا اور سجدہ کرنا بھول گیا تو جب تک حرمت نماز میں ہے کرلے، اگرچہ سلام پھیر چکا ہو اور سجدۂ سہو کرے۔ تاخیر سے مراد تین آیت سے زیادہ پڑھ لینا ہے کم میں تاخیر نہیں مگر آخر سورت میں اگر سجدہ واقع ہے، مثلاً اِنْشَقَّتْ تو سورت پوری کر کے سجدہ کرے گا جب بھی حرج نہیں ۔ ( حصہ چہارم سجدہ تلاوت کا بیان ) قرآن پاک میں کل چودہ سجدے ہیں ، جہاں سجدہ کی آیت ہے وہاں بتا دیا گیا ہے ۔۔
واللہ اعلم بالصواب ،
کتبہ: محمد اختر علی واجد القادری الحنفی عفی عنہ ،خادم شمس العلما دار الافتاء و القضاء ،جامعہ اسلامیہ میراروڈ ممبئی ۱۸، رمضان المبارک ۱۴۴۱
0 Comments:
براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ