Headlines
Loading...
حرام پیسہ سے قرض ادا کرنا کیسا ہے؟)

حرام پیسہ سے قرض ادا کرنا کیسا ہے؟)



                السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مسئلہ:۔ کیا فرما تے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہاگر کسی نے حرام پیسے سے قرض کی ادئیگی کی تو اس کاکیا حکم ہے؟ نیز قرض کی ادائیگی ہوگی یانہیں؟ مع حوالہ جواب عنایت فرمائیں                   

          المستفتی:۔محمد آصف رضا رضوی دسولی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
               وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

               الجــــــــوابــــــــــ بعون الملک الوہاب

حرام پیسہ کسی بھی کام میں لانا شرعا ناجائز و حرام ہے سوائے اس کے کہ جس کا لیا ہو اسے دے دے جیسا کہ سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ تحریر فرما تے ہیں کہ حرام روپیہ کسی کام میں لگانا اصلاً جائزنہیں، نیک کام ہو یا اور، سوا اس کے کہ جس سے لیا اُسے واپس دے یافقیروں پرتصدّق کرے۔ بغیر اس کے کوئی حیلہ اُس کے پاک کرنے کانہیں۔(فتاوی رضویہ جلد ۲۳؍ ص ۵۸۱؍دعوت اسلامی) لیکن اگر کسی نے قرض میں دیا تو قرض ادا ہو جا ئے گا اور لینے والے کے حق میں جا ئز ہو گا کہ دینے والے نے یہ کہہ کر نہیں دیا ہوگا کہ یہ مال حرام ہے ہاں اگر یہ کہہ کر دیتا کہ یہ مال حرام ہے تو لینا جائز نہ ہوتا مگر عموما ایسا نہیں ہوتا ہے سیدی سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ تحریر فرما تے ہیں کہ حرام روپیہ مشتری کو دکھا کر کہااس کے بدلے فلا ں شے دے دے، اس نے دے دی، اس نے وہی حرام روپیہ قیمت میں دیا تو اب وہ شیٔ خبیث ہےکما ھوقول الامام الکرخی المفتی بہ کما فی التنویر وغیرہ ‘‘جیسا کہ امام کرخی کا مفتی بہ قول ہے جیسا کہ تنویر وغیرہ میں ہے۔ ( درمختار شرح تنویر الابصار ؍بحوالہ فتاوی رضویہ جلد ۱۶؍ص ۱۲۷؍دعوت اسلامی )نیز فرما تے ہیں کہ حرام روپیہ دکھاکر کہے اس کے عوض دے دے پھر قیمت میں وہی زر حرام دے، ایسا بہت کم ہوتا ہے،تو عام خریداریوں میں خبث آنا معلوم نہیں تو منع حکم نہیں۔سیدنا امام محمد فرماتے ہیں:بہ ناخذ مالم نعرف شیئا حرام بعینہ‘‘ہم اسی کو لیتے ہیں جب تک کسی معین شئ کا حرام ہونا ہمیں معلوم نہ ہو۔( فتاوٰی ہندیۃ کتاب الکراہیۃ الباب الثانی عشر فی الہدایا والضیافات نورانی کتب خانہ پشاور ۵؍ ۳۴۲؍بحوالہ فتاوی رضویہ جلد ۱۶؍ص ۴۸۸؍دعوت اسلامی )خلاصہ کلام یہ ہے کہ مال حرام کو لیناحرام ہے یونہی اس کو کسی کام میں لانا بھی حرام ہے خواہ وہ کام دینی ہو یا دنیاوی لیکن قرض خواہ کے حق میں وہ جائز ہے اور اس سے قرض بھی ادا ہوجا ئے گا البتہ قرض دینے والا گنہگار ہوگا

                         ۔واللہ اعلم بالصواب

کتبہ  فقیر تاج محمد قادری واحدی ۱۳؍ ذی القعدہ ۱۴۴۱ھ    ۵؍ جولا ئی ۲۰۲۰ء بروز اتوار

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ