عقائد
کیا موسیٰ علیہ السلام نے عزرائیل علیہ السلام کے طمانچہ مارا تھا
سوال
حضرت کی بارگاہ میں ایک مسئلہ ہے
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام کے اس واقعے کے متعلق کہ کچھ لوگ ایک بیان کرتے ہیں جو کہ حضرت موسی علیہ السلام کی طرف نسبت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب عزرائیل علیہ الصلاۃ والسلام حضرت موسی علیہ السلام کی روح قبض کرنے کے لئے آئے تو حضرت موسی علیہ السلام نے حضرت عزرائیل کے منہ پر ایک طمانچہ مارا جس سے حضرت عزرائیل کی آنکھ باہر آ گئی تھی اس طرح کا واقعہ بہت سے لوگ بیان کرتے ہیں کیا یہ واقعہ درست ہے ٹھیک ہے یہ کہاں سے ثابت ہے رہنمائی فرمائیں حوالے کے ساتھ آپ کی عین نوازش ہوگی
آپ کا خادم محمد فرقان علی تحصیل ضلع رامپور ممبر آف اسلامی معلومات گروپ نمبر چہارم
جواب
جی ہاں بالکل یہ واقعہ درست ہے
جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ
حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أُرْسِلَ مَلَكُ الْمَوْتِ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِمَا السَّلَام، فَلَمَّا جَاءَهُ صَكَّهُ فَرَجَعَ إِلَى رَبِّهِ،فَقَالَ: أَرْسَلْتَنِي إِلَى عَبْدٍ لَا يُرِيدُ الْمَوْتَ، فَرَدَّ اللَّهُ عَلَيْهِ عَيْنَهُ، وَقَالَ: ارْجِعْ، فَقُلْ لَهُ يَضَعُ يَدَهُ عَلَى مَتْنِ ثَوْرٍ فَلَهُ بِكُلِّ مَا غَطَّتْ بِهِ يَدُهُ بِكُلِّ شَعْرَةٍ سَنَةٌ، قَالَ: أَيْ رَبِّ، ثُمَّ مَاذَا ؟، قَالَ: ثُمَّ الْمَوْتُ، قَالَ: فَالْآنَ فَسَأَلَ اللَّهَ أَنْ يُدْنِيَهُ مِنْ الْأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ رَمْيَةً بِحَجَرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَلَوْ كُنْتُ، ثَمَّ لَأَرَيْتُكُمْ قَبْرَهُ إِلَى جَانِبِ الطَّرِيقِ عِنْدَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ
ترجمہ ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں عبداللہ بن طاؤس نے ‘ انہیں ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ملک الموت (آدمی کی شکل میں) موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس بھیجے گئے۔ وہ جب آئے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے (نہ پہچان کر) انہیں ایک زور کا طمانچہ مارا اور ان کی آنکھ پھوڑ ڈالی۔ وہ واپس اپنے رب کے حضور میں پہنچے اور عرض کیا کہ یا اللہ! تو نے مجھے ایسے بندے کی طرف بھیجا جو مرنا نہیں چاہتا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھ پہلے کی طرح کردی اور فرمایا کہ دوبارہ جا اور ان سے کہہ کہ آپ اپنا ہاتھ ایک بیل کی پیٹھ پر رکھئے اور پیٹھ کے جتنے بال آپ کے ہاتھ تلے آجائیں ان کے ہر بال کے بدلے ایک سال کی زندگی دی جاتی ہے۔ (موسیٰ (علیہ السلام) تک جب اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام پہنچا تو) آپ نے کہا کہ اے اللہ! پھر کیا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر بھی موت آنی ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) بولے تو ابھی کیوں نہ آجائے۔ پھر انہوں نے اللہ سے دعا کی کہ انہیں ایک پتھر کی مار پر ارض مقدس سے قریب کردیا جائے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر میں وہاں ہوتا تو تمہیں ان کی قبر دکھاتا کہ لال ٹیلے کے پاس راستے کے قریب ہے
(بحوالہ صحیح بخاری حدیث نمبر1339)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مذکورہ بالا حدیث سے یہ روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ سائل نے سوال میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تعلق سے جو واقعہ ذکر کیا ہے وہ صحیح درست ہے
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
کتبہ۔ العبد خاکسار ناچیز محمد شفیق رضا رضوی
خطیب و امام سنّی مسجد حضرت منصور شاہ رحمت اللہ علیہ بس اسٹاپ کشنپور الھند
0 Comments:
براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ