نماز کا بیان
جو امام پانچ فی صد رقم لوگوں کی کھائیں اسکے پیچھے نماز ہوگی یا نہیں
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل میں کہ
ہمارے امام صاحب منریگا میں روزگار کار سیوک ہیں وہ اس میں ہونے والے ہر کام میں پانچ فیصد لیتے ہیں تو کیا ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے ؟
کرم فرما کر جواب جلدی عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی
المستفی محمد ذاکر انصاری جھارکھنڈ
جواب
امام اگر منریگا کے کام میں بھاگ دوڑ کرتا ہیں لوگوں کو لے جاکر لگاتا ہے ان کا پیسہ وغیرہ دلواتا ہے تو اسے کا پانچ فیصد لینا درست ہے اور اس کے پیچھے بلا کراہت نماز ہوجائے گی ، اور بھاگ دوڑ نہیں کرتا ہے صرف صلاح مشورہ دیتا لوگوں کو اور ان سے پانچ فیصد لیتا ہے ہیں تو اس کا پانچ فیصد لینا جائز نہیں اور ایسی صورت میں امام کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوگی
حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالیٰط عنہ تحریر فرماتے ہیں
ردالمحتار میں بزازیہ وولوالجیہ سے ہے:
الدلالۃ والاشارۃ لیست بعمل یستحق بہ الاجر، وان قال لرجل بعینہ ان دللتنی علی کذا فلك کذا، ان مشی لہ فدلہ فلہ اجر المثل للمشی لاجلہ،لان ذٰلك عمل یستحق بعقد الاجارۃ
محض بتانا اور اشارہ کرنا ایسا عمل نہیں ہے جس پر وہ اجرت کا مستحق ہو، اگر کسی نے ایك خاص شخص کو کہا اگر تو مجھے فلاں چیز پر رہنمائی کرے تو اتنا اجر دوں گا، اگر وہ شخص چل کر رہنمائی کرے تو اس کو مثلی اجرت دینا ہوگی کیونکہ وہ اس خاطر چل کر لے گا کیونکہ چلنا ایسا عمل ہے جس پر عقد اجارہ میں اُجرت کا مستحق ہوتاہے
غمز العیون میں خزانۃ الاکمل سے ہے
امالودلہ بالکلام فلا شیئ لہ
اگر صرف زبانی رہنمائی دے تو اس کے لئے کچھ نہیں(ت)
اور اگر بائع کی طرف سے محنت و کوشش ودوادوش میں اپنا زمانہ صرف کیا تو صرف اجر مثل کا مستحق ہوگا، یعنی ایسے کام اتنی سعی پر جو مزدوری ہوتی ہے اس سے زائد نہ پائے گا اگر چہ بائع سے قرار داد کتنے ہی زیادہ کا ہو، اور اگر قرار داد اجر مثل سے کم کا ہو تو کم ہی دلائیں گے کہ سقوط زیادت پر خود راضی ہوچکا
خانیہ میں ہے
ان کان الدلال الاول عرض تعنٰی وذھب فی ذٰلك روزگارہ کان لہ اجر مثلہ بقدر عنائہ وعملہ
اگر روزگار کے سلسلہ میں دلال نے محنت کی اور آیا گیا تو اس کی محنت اور عمل کے مطابق مثلی اجرت ہوگی
اشباہ میں ہے
بعہ لی بکذا ولك کذا فباع فلہ اجر المثل
اگر دوسرے کو کہا تو میرے لئے اتنے میں اس کو فروخت کر تو اس نے وہ چیز فروخت کردی تو دلال مثلی اُجرت کا مستحق ہوگا
حموی میں ہے
ای ولایتجاوزبہ ماسمی وکذالو قال اشترلی کما فی البزازیۃ،وعلی قیاس ھذا السماسرۃ والدلالین الواجب اجر المثل کما فی الولوالجیۃ
یعنی مقررہ اجرت سے زائد نہ ہوگی، اور یوں ہی اگر کہا تو مجھے خریددے، جیسا کہ بزازیہ میں ہے اوراس پر قیاس ہوگا دلال حضرات کا معاملہ کہ ان کو مثلی اجرت دی جائے گی جیسا کہ ولولوالجیہ میں ہے
ردالمحتار میں تاتارخانیہ سے ہے
عربی عبارت
فی الدلال والسمسار یجب اجرالمثل و ماتواضعوا علیہ ان فی کل عشرۃ دنانیر کذا فذلك حرام علیہم
آڑھتی اور دلال حضرات کے لئے مثلی اجرت ہوگی اور وہ جو دس دنا نیر میں اتنا طے کرتے ہیں تو یہ حرام ہے
فتاویٰ رضویہ جلد ۱۹ صفحہ ۴۵۲ تا ۴۵۴
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
کتبہ فقیر محمد معصوم رضا نوریؔ ارشدی عفی عنہ
۱۹ جمادی الاول ۱۴۴۳ ھجری
0 Comments:
براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ