سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام وفقہاء عظام اس مسئلے میں کہ کسی پر بغیر ثبوت کے صرف سنی سنائی باتوں پر کسی پر تہمت لگانا کیسا ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں مفصل جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی
المستفی محمد ایوب خان
جواب
سنی سنائی بات یا خود ہی گڑھ کر صحیح العقیدہ مؤمن پر تہمت لگانا یا بہتان باندھنا حرام ہے اور گناہ کبیرہ میں سے ہے ایسا شخص مستحق عذاب ہے پھر چاہے بعد میں معلوم ہوجائے کہ وہ نقص اس مومن میں موجود تھا یا موجود نہیں تھا. اگر تہمت لگائی اور درست نہ نکلی تو جاننا چاہیے کہ سلطان کے یہاں مفتری کی سزا اسّی کوڑے ہیں. اگر درست نکلی پھر بھی اس مؤمن سے معافی مانگے بغیر چھٹکارا نہیں. مسلمانوں سے حسن ظن رکھنا اور اس کے عیبوں کو بغیر عذر شرعی ظاہر نہ کرنا ہم پر لازمی اور فاسقین کے قول کی تحقیق کئے بغیر اسے آگے پہنچا دینا جرم ہے. اور غیر فاسق کے بیان کی تحقیق کے بغیر کسی مسلمان پر بہتان باندھنا نا جائز ہے. اس کا کفارہ یہ ہے کہ مفتری (بعد سزا یا اگر سلطان سزا نہ دے یا جس کی پر تہمت پائی وہ وفات پا چکا تو) اس کے لیے دعائے مغفرت کرتا رہا جس طرح غیبت کے بارے میں فرمایا
كفارة من اغتبت أن تستغفر له
(ذم الغیبة لابن أبی الدنیا، م: ١٥٥؛ الکامل لابن عدی، ٢٢٢/٤؛ عن انس وسهل بن سعد)
اللهﷻ فرماتا ہے
وَمَنْ يَكْسِبْ خَطِيئَةً أَوْ إِثْمًا ثُمَّ يَرْمِ بِهِ بَرِيئًا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا
﴿النساء، ۱۱۲﴾
اور جو کوئی خطا یا گناہ کمائے پھر اسے کسی بےگناہ پر تھوپ دے اس نے ضرور بہتان اور کھلا گناہ اٹھایا..
امام احمد یار نعیمی رحمة الله تعالى علیه اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں: بےگناہ کو تہمت لگانا سخت جرم ہے۔ وہ بے گناہ خواہ مسلمان ہو یا کافر
عن ابن عمر، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من بهت مؤمنا أو مؤمنة حبسه الله في ردغة الخبال يوم القيامة، حتى يخرج مما قال وليس بخارج
(معجم الکبیر، م: ١٣٤٣٥؛ مسند الشامیین، م: ٢٤٦٠؛ حلیة الاولیاء، ٢١٩/١٠؛ معجم الاوسط، م: ٦٤٩١؛ مسند احمد، م: ٥٣٨٥، ٥٥٤٣؛ سنن أبی داود، م: ٣٥٩٧؛ مساؤی الأخلاق للخرائطی، م: ١٨٨؛ السنن الکبری للبیهقی، م: ١١٤٤١؛ معجم ابن الأعرابی، م: ٢٩٢، ٦٤٠؛ معجم أبی یعلی، م: ٨٤؛ جامع معمر بن راشد، م: ٢٠٩٠٥؛ تاریخ بغداد، ١٩٧/٨؛ شعب الإیمان، م:٦٣١٠، ٧٢٦٧؛ اسنادہ صحيح)
ابن عمر رضی الله تعالى عنه سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن مرد یا عورت پر بہتان باندھا، اللهﷻ اسے دوزخ کی دھون میں قید کرے گا یہاں تک وہ کہی ہوئی بات سے نکل جائے. (غالبا اس کا معنی ہے کہ اس قدر اس مفتری کی سزا پوری ہوجائے جس قدر تہمت لگانے کا گناہ تھا)
اسی طرح حضرت ابو درداء رضی الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا
من قال في امرئ مسلم ما ليس فيه ليؤذيه حبسه الله في ردغة الخبال يوم القيامة حتى يقضى بين الناس
(تاریخ دمشق لابن عساکر عن أبی الدرداء، ٧٣/٦)
جس نے کسی مسلمان کو اذیت دینے کے لیے کوئی ایسی بات کہی جو اس میں سے نہیں تھی تو اللهﷻ قیامت کے روز اسے جہنمیوں کے دھون میں قید کرے گا یہاں تک کے لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے انہیں سے تو روایت ہے کہ
رسول الله ﷺ نے فرمایا
من ذكر امرءا بما ليس فيه ليعيبه حبسه الله في نار جهنم حتى يأتي بنفاذ ما قال
(المعجم الاوسط، م: ٨٩٣٦)
جس نے کسی شخص کے متعلق ایسی بات کہی جو اس میں نہیں تھی تاکہ اسے عیب لگائے تو اللهﷻ سے جہنم کی آگ میں قید فرمائے گا یہاں تک کہ وہ کوئی ایسی دلیل لائے جس کے ذریعہ اپنی کہی بات سے نکل سکے.
امام اہل سنت غالبا اسی کی تشریح میں فرماتے ہیں: جوکسی مسلمان پر جھوٹا الزام رکھے وہ سخت بدبو اور سخت گرم پیپ جو دوزخیوں کے بدن سے بہہ کر مثل دریا کے ہوجائے گا اس میں ڈالاجائے گا اور حکم دیاجائے گا کہ اسی میں رہ جب تک کہ اپنے کہے ہوئے کا ثبوت نہ دے دے اور کہاں سے دے سکے گا جبکہ جھوٹی بات ہے
(فتاوی رضویہ، ٣٥٦/٢٤)
نبی کریم سے ہو پوچھا گیا ردغة الخبال کیا ہے؟ فرمایا عصارة أهل النار
(مسند أبی یعلی، ٦٨٢٧)
اور ایک دوسری روایت میں فرمایا: شحوم أهل النار وصديدهم
حوالہ
(معجم الکبیر، ١٣٠١٥)
امام نیساپوری لفظ ردغة الخبال کی تشریح میں فرماتے ہیں: بفتح الدال وسكونها هي غسالة أهل النار من القيح والصديد
(تفسیر النیسابوری، ٣٤٨/٤)
وروى علي أن النبي ﷺ قال: من بهت مؤمنا أو مؤمنة أو قال فيه ما ليس فيه أقامه الله تعالى على تل من نار يوم القيامة حتى يخرج مما قال فيه وإن عظم المؤمن أعظم عند الله وأكرم عليه من ملك مقرب وليس شي أحب إلى الله من مؤمن تائب أو مؤمنة تائبة وإن الرجل المؤمن يعرف في السماء كما يعرف الرجل أهله وولده
(تفسیر الثعلبی، ١٣١/٢؛ تفسیر القرطبی، ٢٩/٣؛ راوہ ابن النجار)
حضرت علی رضی الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی مومن مرد یا عورت پر بہتان لگایا یااس کے بارے وہ کہا جو اس میں نہیں تھا، تو قیامت کے دن الله تعالی اسے آگ کے ٹیلے پر کھڑا کرے گا، یہاں تک کہ وہ اس سے نکل جائے جو اس نے اس کے بارے میں کہا (یعنی جس بات کی اس نے تہمت لگائی تھی اس کی سزا بھگتنے کے بعد) بلاشبہ الله تعالی کے نزدیک بندہ مومن کی عظمت اور عزت واکرام مقرب فرشتے سے بھی زیادہ ہے اور الله تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرنے والے مومن مرد اور توبہ کرنے والی مومنہ عورت سے زیادہ محبوب اور کوئی شے نہیں اور بلاشبہ مومن آدمی کی پہچان آسمان میں اسی طرح ہوتی ہے جس طرح ایک آدمی کی پہچان اس کے گھر والوں اور اس کی اولاد میں ہوتی ہے۔
اور ابو زر رضی الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ
رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا
من أشاد على مسلم عورة يشينه بها بغير حق شانه الله بها في النار يوم القيامة
(شعب الایمان، م: ٩٢١١؛ مکارم الأخلاق للخرائطی، م: ٤٤٧)
جس نے کسی مسلمان کی کوئی برائی مشہور کی کہ ناحق اس کی بے عزتی کرے تو اللهﷻ سے قیامت کے دن جہنم کی آگ میں رسوا کرے گا.
اسی کی مثل حدیث امام حاکم نے عبد الله بن عمرو رضی الله تعالى عنه سے اور امام أبو نعیم نے معاذ بن انس الجهنی سے دو اسناد سے روایت کیا ہے
عن عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله ﷺ: من قال في مؤمن ما ليس فيه، حبس في ردغة الخبال حتى يأتي بالمخرج مما قال
(المستدرک الحاکم، م: ٢٢٢٢)
عن سهل بن معاذ، عن أبيه، قال: قال رسول الله ﷺ: من قال في مؤمن ما لا يعلم حبسه الله على جسر جهنم حتى يخرج مما قال، ومن رمى مؤمنا بشيء يريد شينه أسكنه الله ردغة الخبال حتى يخرج مما قال
(حلیة الاولیاء، ١٨٨/٨)
وأخرج عبد الرزاق عن الحسن قال: الزنا أشد من القذف والقذف أشد من الشرب
حوالہ دوم
(زاد المسیر، ٢٧٧/٣؛ الدر المنثور، ١٣٣/٦)
عبدالرزاق نے حسن بصری رحمة الله تعالى علیه سے روایت کیا کہ
زنا جھوٹی تہمت لگانے سے زیادہ سخت ہے اور جھوٹی تہمت شراب پینے سے زیادہ سخت ہے
ج
امام غزالی فرماتے ہیں
لا تجوز نسبة مسلم إلى كبيرة من غير تحقيق نعم يجوز أن يقال قتل ابن ملجم عليا وقتل أبو لؤلؤة عمر رضي الله عنهما فإن ذلك ثبت متواترا فلا يجوز أن يرمى مسلم بفسق أو كفر من غير تحقيق
(احیاء العلوم دین، کتاب آفات اللسان، ١٢٥/٣)
بغیر تحقیق کئے کسی مسلمان کی کبیرہ گناہ کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں، لیکن ہاں یہ جائز ہے کہ کہا جائے کہ ابن ملجم نے جناب علی (کرم اللہ وجہہ) کو شہید کیا اس لئے کہ یہ تواتر سے ثابت ہے لہذا کسی مسلمان کو فسق اور کفر کی تحقیق کئے بغیر تہمت لگانا جائز نہیں
قال المجدد رحمه الله
حقوق تو مسلمان پر ہر مسلمان رکھتاہے اور کسی مسلمان کو تہمت لگانی حرام قطعی ہے خصوصاً معاذ الله اگرتہمت زنا ہو
(فتاوی رضویہ، ٣٨٧/٢٤)
اور فرمایا
جھوٹی تہمت رکھنے والا سخت گنہگار ومستحق عذاب ہے
(فتاوی رضویہ، ٧٥٩/٢٣)
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
کتبہ ابن علیم المصبور العینی
گونڈی ممبئی مہاراشٹر
0 Comments:
براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ