(سئل) پہلی صف میں جگہ نہیں ہونے کی صورت میں بیچ صف یا داہنے طرف سے یا بائیں کے اخیر سے کہاں سے مقتدی کو پیچھے کھینچے؟ اگر کسی نے بائیں طرف سے کسی کو پیچھے کھینچا تو کیا حکم عائد ہوگا؟ کیا نماز میں کوئی خلل واقع ہوگا؟
(فأجاب) صف میں جگہ نہ ہونے کی صورت میں مقتدی کو چاہیے کہ وہ اس صف سے کسی ایسے شخص کو پچھلی صف میں کھینچ لے جو مسئلہ سے واقف ہو. ایسا شخص موجود نہ ہو یا وہ مقتدیوں سے متعارف نہیں تو امام کے رکوع تک کسی نمازی کے مسجد میں آنے کا انتظار کرے وہ آئے تو اس کے ساتھ آئندہ صف کے وسط میں کھڑا ہوجائے ورنہ تنہا امام کی سیدھ پر پچھلی صف میں کھڑا ہوجائے یہ بہتر ہے کہ اندیشہ ہے مسئلہ سے جاہل شخص پیچھے کھینچنے پر وہ غالبا اپنی نماز فاسد کر لے گا اور اگر پہلی صف میں تمام مقتدی اس مسئلہ سے واقف ہو تو وسط سے ایک کو پیچھے کھینچ لے اور اگر جانبین میں دو مقتدی جانکار ہوں تو اسے پیچھے کھینچ لے جو امام کے دہنی طرف لأنه کان رسول الله ﷺ یحب التيامن فی كل شيئ حتي في تنعله. اب اگر وہ وسط سے زیادہ قریب ہے تو آئندہ صف کے وسط میں کھڑا ہوجائے بہتر ہے یہ نہ ہو تو اس مقتدی کو سیدھ میں پچھلی صف میں لے آئے اور اس کے ساتھ کھڑا ہو اسی طرح اگر بائیں طرف عالم مقتدی موجود ہو ان تمام صورتوں میں بلا کراہت نماز ہوجائے گی.
قال المجدد رحمه الله جو شخص صف کے پیچھے اکیلا کھڑا ہو کر نماز پڑھتا ہے اس کی نماز نہیں ہوتی۔ یہ بھی محض افترا ہے بلا ضرورت ایسا کرنے میں صرف کراہت ہے نماز یقیناً ہوجائے گی. (فتاوی رضویہ، ٦١٢/٢٧)
درمختار میں ہے قدمنا كراهة القيام في صف خلف صف فيه فرجة للنهي، وكذا القيام منفردا وإن لم يجد فرجة بل يجذب أحدا من الصف ذكره ابن الكمال، لكن قالوا في زماننا تركه أولى، فلذا قال في البحر: يكره وحده إلا إذا لم يجد فرجة. (در المختار، ص: ٨٨)
ہم پہلے بیان کرچکے مکروہ ہونا قیام کا ایسی صف میں جس کے آگے والی صف میں فرجہ ہو نہی کی سبب. اسی طرح مکروہ ہونا تنہا شخص کے قیام کا اگرچہ وہ آگے کی صف میں جگہ نہ پائے اسے چاہیے کہ وہ صف میں سے کسی کو پیچھے کھینچ لے. اس کا ذکر ابن کمال نے کیا لیکن ہمارے زمانے میں فقہاء نے فرمایا ہے کہ اس کا ترک اولٰی ہے اسی لیے بحر میں فرمایا، اکیلے کھڑے ہونا مکروہ ہے مگر جب صف میں جگہ نہ پائے تو مکروہ نہیں
رد محتار میں ہے قال في القنية: والقيام وحده أولى في زماننا لغلبة الجهل على العوام فإذا جره تفسد صلاته اهـ قال في الخزائن قلت: وينبغي التفويض إلى رأي المبتلى، فإن رأى من لا يتأذى لدين أو صداقة زاحمه أو عالما جذبه وإلا انفرد. (رد المحتار، ٦٤٧/١)
مجمع الانہر میں ہے الأصح أن ينتظر إلى الركوع فإن جاء رجل وإلا جذب رجلا لكن الأولى في زماننا القيام وحده لغلبة الجهل فإنه إذا جذب أحدا ربما أفسد صلاته. (مجمع الانہر، ١٢٥/١؛ حاشیۃ الطحطاوی، ٣٠٧/١)
عالمگیری میں ہے يكره للمنفرد أن يقوم في خلال صفوف الجماعة في خالفهم في القيام والقعود وكذا للمقتدي أن يقوم خلف الصفوف وحده إذا وجد فرجة في الصفوف وإن لم يجد فرجة في الصفوف روى محمد بن شجاع وحسن بن زياد عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى أنه لا يكره فإن جر أحدا من الصف إلى نفسه وقام معه فذلك أولى. كذا في المحيط وينبغي أن يكون عالما حتى لا تفسد الصلاة على نفسه. كذا في خزانة الفتاوى. (عالمگیری، ١٠٧/١)
اکیلے نماز پڑھنے والے کے لیے مکروہ ہے کہ وہ صفوف جماعت کے درمیان کھڑا ہوا کہ قیام وقعود میں مخالفت ہوگی. اسی طرح اکیلے مقتدی کے لیے مکروہ ہے کہ پچھلی صف میں کھڑا ہو جبکہ آگے صف میں جگہ خالی ہو. اور اگر صف میں جگہ نہ ملے تو محمد بن شجاع اور حسن بن زیاد نے امام ابو حنیفہ سے روایت کیا ہے کہ ان نزدیک یہ مکروہ نہیں. پس اگر کسی شخص کو جماعت میں سے اپنی طرف کھینچ کر کھڑا ہوجائے تو یہ اولی ہے یہ محیط میں لکھا ہے اور ایسے شخص کو کھینچے جو مسئلہ سے واقف ہو تا کہ وہ اپنی نماز نہ فاسد کر لے یہ خزانۃ الفتاوی میں لکھا ہے
اسی میں ہے وأفضل مكان المأموم حيث يكون أقرب إلى الإمام فإن تساوت المواضع ففي يمين الإمام وهو الأحسن هكذا في المحيط. (فتاوی الہندیہ، ٧٩/١؛ بدائع الصنائع، ١٥٩/١؛ فتاوی التاتارخانیہ، ٣٩٠/١)
مقتدی کے قیام کے لیے افضل جگہ وہ ہے جو امام سے قریب ہو اور اگر کئی مقامات امام سے قرب میں برابر ہوں تو امام کے دہنی طرف کھڑا ہو یہی احسن ہے یہ محیط میں لکھا ہے. والله اعلم بالصواب
کتبه: ندیم ابن علیم المصبور العینی
0 Comments:
براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ