Headlines
Loading...


السلام علیکم و رحمة الله و بركاته 

علماء کرام سے ایک سوال ہے کہ زید کہتا ہے کہ مسجد کے دائیں جانب اذان ہو سکتی ہے لیکن خلاف سنت ہے ۔ اور حوالہ دیتا ہے کہ سرکار نے حضرت بلال کو دائیں جانب اذان دینے کا حکم دیا اس لیے یہ سنت ہے ۔۔

اور بکر کہتا ہے کہ ہاں ہو سکتی ہے لیکن خلاف سنت نہیں ہے 

اس لیے علما حضرات سے گزارش ہے کہ کون صحیح ہے اور کون غلط ہے پوری تفصیل سے ساری باتیں بتائی جائے ۔حوالے کے ساتھ ہو تو زیادہ بہتر ہوگا فقط ۔۔ ۔

سائل محمد سالک رضا حبیبی اڈیشہ

وعلیکم السلام و رحمة الله تعالى وبركاته

اذان دائیں جانب دینا سنت نہیں ہے. اس کے لیے کوئی خاص سمت متعین نہیں ہے. مجھے یہ حدیث نہیں ملی جس کا آپ ذکر کر رہے ہیں. بالفرض اگر موجود ہو تو ممکن ہے کہ مسجد نبوی کے دائیں جانب آبادی زیادہ تھی اس لیے سرکار ﷺ نے یہ حکم فرمایا.

امام اہل سنت فرماتے ہیں: جس مسجد میں اذان کے لئے منارہ بنا ہو جب تو اُس کی جہت خود معین ہے اُس منارہ پر اذان دینا چاہئے خواہ وہ کسی جانب ہو. 

فی البحرالرائق تحت قولہ ویجلس بینھما السنۃ ان یکون الاذان فی المنارۃ. (البحرالرائق، باب الاذن، ۱/۲۶۱)

البحرالرائق میں ماتن کے قول ویجلس بینھما کے تحت ہے کہ سنّت یہ ہے کہ اذان منارہ پر دی جائے الخ 

اور جہاں نہ ہوتو نظر فقہی میں انسب یہ کہ جس طرف حاجت زائد ہو اُسی جانب کو اختیار کرے مثلاً ایک جانب مسلمان زیادہ رہتے ہیں یا اُس طرف مکان اُن کے دُور ہیں تو وہی جانب اذان کے لئے انسب ہے۔

فانہ انما شرع للاعلام فماکان ادخل فی المقصودکان احسن بل رایت ائمتناربمامالوا الی ھذا المعنی والیہ اشاروا من دون تعیین لجھۃ ففی البحرالرائق وردالمحتار عن السراج ینبغی للمؤذن ان یؤذن فی موضع یکون اسمع للجیران. (ردالمحتار، باب الاذن، ۱/۲۸۳)

اذان کی مشروعیت نماز کی اطلاع کے لئے ہے تو یہ مقصود جس احسن طریقہ سے حاصل ہوگا اسے اپنایا جائے بلکہ میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے ائمہ عموماً اسی معنی کی طرف مائل ہوئے ہیں اور اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کسی جہت کا تعین نہیں کیا۔ البحرالرائق اور ردالمحتار میں سراج کے حوالے سے ہے مؤذن ایسی جگہ اذان دے کہ وہاں سے گردونواح کے لوگوں کو زیادہ آواز پہنچے۔ (فتاوی رضویہ)

کتبہ ندیم العلیم المصبور العینی

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ