Headlines
Loading...



السلام علیکم کسی نے اپنی بیوی سے غصے میں بغیر نیت طلاق کہاجؤتو کیا اس سے طلاق بائن پڑ جائے گی؟ بہار شریعت کا یہ مسئلہ سمجھا دیں کنایہ کے بارے میں ہے کنایہ سے طلاق واقع ہونے میں یہ شرط ہے کہ نیت طلاق ہو یا حالت بتاتی ہو کہ طلاق مراد ہے یعنی پیشتر طلاق کا ذکر تھا یا غصہ میں کہاپھر الفاظ کنایہ میں ہے(١) جا (۲) نکل (۳) چل (۴) روانہ غصہ والی صورت میں (جا ) بغیر نیت طلاق بولنے کا حکم سمجھ نہیں آ رہا... رہنمائی فرمائیں 

عبد اللہ مہاجری

وعلیکم السلام و رحمة الله تعالى وبركاته

کنایہ کے الفاظ تین قسم کے ہوتے ہیں.

اولا: جو رد کا احتمال رکھتے ہیں.

مثلا: جا، نکل، روانہ ہو، کھڑی ہوجا، پردہ کر، دوپٹہ اوڑھ، ہٹ جا، جگہ چھوڑ دُور ہو، خالی ہو وغیرہ. 

ثانیا: جو ڈانٹ یا گالی کا احتمال رکھتے ہیں

جیسے: اے بَری، تعلق نہیں، تو جدا ہے، میرے کام کی نہیں وغیرہ. 

ثلاثا جو ان دونوں کا احتمال نہیں رکھتے

جیسے تو مجھ سے آزاد ہے، میں نے تجھے بے قید کیا، میں نے تجھ سے مفارقت کی، عدت پوری کر، رحم کوصاف کر، تُو اکیلی ہے، تُو آزاد ہے، تجھے اپنا اختیار ہے، تیرامعاملہ تیرے اختیار میں ہے، میں نے تجھے چھوڑ دیا وغیرہ. 

رضا کی حالت میں یہ تینوں قسم کے الفاظ نیت پر موقوف ہوں گے، اور غصّہ کی حالت میں پہلے دونوں موقوف اور تیسرا غیر موقوف.

بہار شریعت میں اسی مسئلہ کی آگے تفصیل ہے

غصے میں بغیر نیت کہا جاؤ تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی. یہ بائنہ کے الفاظ قسم اول سے ہیں یعنی رد کا احتمال رکھتے ہیں تو حالت رضا وغضب دونوں میں طلاق کا وقوع نیت پر موقوف ہوگا جو کہ نہیں کی گئی

واللہ اعلم باالصواب

کتبہ ندیم ابن علیم المصبور العینی

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ