Headlines
Loading...


(سئل) کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل میں کہ شادی وغیرہ میں جو لوگ ڈی جے وغیرہ لاتے ہیں مسجد کی جانب سے جرمانہ عائد کیا گیا ہے کیا اس جرمانے کا پیسہ مسجد یا مدرسے میں لگا سکتے ہیں مدلل جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی

سائل: محمد سراج رضوی

(فأجاب) گناہ پر مالی جرمانہ لینا اور حاصل شدہ روپیے کو مسجد یا مدرسہ میں لگانا حرام ہیں چاہے مجرم مسلمان ہو یا کوئی اور. اور اگر اپنی خوشی سے روپیہ دے تو جائز ہے.

امام اہل سنت فرماتے ہیں: گناہ پر مالی جرمانہ ڈالنا یہ سب حرام ہے۔ قال الله تعالی ولا تاکلوا اموالك بینکم بالباطل. (الله تعالی نے ارشاد فرمایا: (لوگو!) اپنے مال آپس میں ناجائز طور پر مت نہ کھاؤ: القرآن الکریم، ۱۸۸/٢) مالی جرمانہ منسوخ ہوگیا اور منسوخ پر عمل حرام ہے. (فتاوی رضویہ، ٢٧٣/٢١)

جرم کی تعزیر مالی جائز نہیں کہ منسوخ ہے اور منسوخ پر عمل حرام. (فتاوی رضویہ، ٥٠٧/١٩)

وہ روپیہ کہ اس شخص سے زجرا لیا گیا حرام ہے کہ تعزیر بالمال منسوخ ہے اور منسوخ پر عمل حرام. (فتاوی رضویہ، ٣٣١/٢٣)

جرمانہ کے ساتھ تعزیر کہ مجرم کا کچھ مال خطا کے عوض لے لیا جائے منسوخ ہے اور منسوخ پر عمل جائز نہیں. (فتاوی رضویہ، ٥٠٥/١٣)

اگر وہ شخص اپنی خوشی سے ہر غیر حاضری کے جرمانہ میں سو لوٹے یا سو روپے دے تو بہت اچھا ہے اور اُن روپوں کو مسجد میں صرف کیا جائے لیکن جبراً ایک لوٹا یہ ایک کوڑی نہیں لے سکتا. فان المصادرۃ بالمال منسوخ والعمل بالمنسوخ حرام (کیونکہ مالی جرمانہ منسوخ ہے اور منسوخ پر عمل کرنا حرام ہے) والله تعالی اعلم. (فتاوی رضویہ، ١١٧/٥)

جرمانہ لینا حرام ہے اور اسے مسجد میں صرف کرنا اور دیوبندیوں سے فتوی پوچھنا حرام اور ان کے فتوی پرعمل کرنا حرام. (فتاوی رضویہ، ٥١٤/١١)

مالی جرمانہ جائز نہیں لأنه شیئ کان ونسخ کما بینه الإمام ابوجعفر الطحاوی رحمہ الله تعالی (کیونکہ یہ چیز پہلے تھی لیکن بعد میں منسوخ ہوگئی جیسا کہ امام ابوجعفر الطحاوی رحمہ الله تعالی نے بیان کیا ہے)(فتاوی رضویہ، ١١٠/٥)

مالی جرمانہ لینا حرام (فتاوی رضویہ، ١١٦/٥)

اور فرمایا تعزیر بالمال منسوخ ہے اور منسوخ پر عمل جائز نہیں۔ درمختار میں ہے: لا بأخذ مال في المذهب. بحر. (مال لینے کا جرمانہ مذہب کی رُو سے جائز نہیں ہے. بحر: درمختار، باب التعزیر، ص: ٣١٦)

اُسی میں ہے وفي المجتبى أنه كان في ابتداء الاسلام ثم نسخ (اور مجتبی میں ہے کہ ابتدائے اسلام میں تھا، پھر منسوخ کردیا گیا ایضا) 

ردالمحتار میں بحر سے ہے وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مالأحد بغير سبب شرعي (اور بزازیہ میں افادہ کیا ہے کہ مالی تعزیر کا قول اگر اختیار کیا بھی جائے تو اس کا صرف اتنا ہی مطلب ہے کہ اس کا مال کچھ مدّت کے لئے روک لینا تاکہ وہ باز آجائے، اس کے بعد حاکم اس کا مال لوٹادے، نہ یہ کہ حاکم اپنے لیے لے لے یا بیت المال کیلئے، جیسا کہ ظالم لوگ سمجھتے ہیں کیونکہ شرعی بسبب کے بغیر کسی کا مال لینا مسلمان کے لئے روا نہیں ردالمحتار باب التعزیر ٦١/٤) والله تعالی اعلم

کتبه: ندیم ابن علیم المصبور العینی٩/ ربیع النور، ١٤٤٠ھ

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ