Headlines
Loading...



کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ  ہجوم میں جب کچھ حضرات قصیدہ پڑھتے ہیں تو اسقدر رقص کرتے ہیں کہ کبھی بیٹھے بیٹھے کھڑے ہوکر پڑھنا شروع کردیتے ہیں اور کبھی ہل ہل کر پڑھتے ہیں اور کبھی پڑھتے ہوئے اتنے جذبات میں آجاتے ہیں کہ بالوں کو کھول کر جھومنے لگتے ہیں حالانکہ انمیں کوئی جزب کی کیفیت نہیں رہتی اور کہتے ہیں کہ یہ بھی ایک قسم کا ذکر کرنے کا طریقہ ہے اور بعض ممالک میں بھی اس قسم ہی کے قصائد پڑھے جاتے ہیں تو کیا یہ عمل از روئے شرع درست ہے بھی یا نہیں اسکا تفصیلی جواب جواب مرحمت فرمائیں؟ 

الجواب: اگر وجد کرنا، خالص لوجہ الله، حالت بے اختیاری میں ہو تو مندوب (جائز) ہے اور ریا یا شہرت بڑھانے یا لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی غرض سے ہو تو حرام قطعی. ریاء سے بچتے ہوئے لذت ذکر حاصل کرنے کے لیے اگر صوفیاء کی مشابہت میں جھوم جھوم کر ذکر کرے تو اس پر عذاب نہیں لیکن اس مشابہت کی شہ پر بال کھول کر لوگوں میں دہشت پیدا کرنا کوئی ثواب بھی نہیں بلکہ حرام ہے کہ مشابہت میں یہ ریا کو ہی ظاہر کرتا ہے. 

فرمایا مجدد اعظم رحمہ الله نے اور یہ رقص اگر معاذ الله بروجہ تصنّع وریاء ہے حرام قطعی وجریمہ فاحشہ ہے اور بطور لہو ولعب بھی ناجائز ومسقط عدالت، اور تمایل کے ساتھ مثل رقص فواحش اشد حرام، نصاب الاحتساب باب سادس پھر تاتارخانیہ پھر فتاوی خیریہ میں ہے:

مسئلة: ھل یجوز الرقص فی السماع؟ 

الجواب: لایجوز وذکر فی الذخیرۃ انه کبیرۃ ومن اباحه من المشائخ فذلك الذي صارت حرکاته کحرکات المرتعش.  (مسئلہ: کیا سماع میں رقص جائز ہے؟ جواب: جائز نہیں، اور ذخیرہ میں ذکر کیا گیا کہ ناچنا کبیرہ گناہ ہے اور مشائخ میں سے جس نے اسے مباح قرار دیا وہ اس کے حق میں ہے جس کی حرکات مثل رعشہ والے کے بے اختیارہوں: فتاوی خیریہ، کتاب الکراہۃ، مطلب فی الرقص فی السماع، ۲/ ۱۷۹؛ فتاوی رضویہ، ٨٨/٢٤)

ردالمحتار میں ہے ما یفعله متصوفة زماننا حرام لایجوز القصد والجلوس الیه ومن قبلهم لم یفعل کذلك له شرائط... أن لا یقوموا إلا مغلوبین ولا یظبروا وجدا الاصادقین. (ہمارے زمانے کے نمائشی صوفی جوکچھ کرتے ہیں وہ حرام ہے لہٰذا اس کا ارادہ کرنا اور ایسی مجلس میں بیٹھنا جائز نہیں اور ان سے پہلے کبھی ایسا نہ کیا گیا اس کے لئے شرائط ہیں، ایک یہ کہ وہ نہ اٹھیں مگر مغلوب ہو کر اور وجد کا اظہار نہ کریں سوائے سچا ہونے کی حیثیت کے ردالمحتار، کتاب الحظر والاباحۃ، ۵/ ۲۲۲)

شفاء العلیل علامہ شامی میں ہے

لا كلام لنا مع الصدق من ساداتنا الصوفية المبرأين من كل خصلة رضية فقد سُئل إمام الطائفتين سيدنا الإمام الجنيد أن أقواماً يتواجدون ويتمايلون فقال: دعوهم مع الله تعالى يفرحون. إلى أن قال: ولا كلام لنا مع من ابتدى بهم وذاق من مشربهم ووجد من نفسه الشوق والهيام في ذات الملك العلام بل كلامنا مع هؤلاء العوام الفسقة اللئام الذین اتخذواطمجلس الذکر شبکة لصید الدنیا الدنیة وقضاء لشهواتھم الشنیعة الردیة ولسنا نقصدمنهم تعیین احدفا الله مطلع علی احوالهم. مختصرا. (ہمارا کلام سچائی پرمبنی ہے، ہمارے سادات صوفیا گھٹیا عادات سے پاک ہیں پس وہ نمائشی صوفیا سے نہیں، چنانچہ امام الطائفتین سیدنا جنید بغدادی رضی الله تعالی عنہ سے پوچھا گیا کہ کچھ لوگ وجد کرتے اور لڑکھڑاتے ہیں اس بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ ارشاد فرمایا کہ ان کو چھوڑدو یہ الله تعالی سے خوشی پاتے ہیں اگر تجھے بھی ان جیسا ذوق حاصل ہوتا تو ان کو اس چلانے اور گریبان پھاڑنے میں معذورجانتا. اور ہمار اکلام ان سے بھی نہیں کہ جنہوں نے ان اقتداء کی اور ان کے مشرب کا ذائقہ چکھا اور اپنے اندر شوق اور جنون عشق، ملک علام میں پایا، بلکہ ہماری گفتگو ان عام لوگوں کے ساتھ ہے جو فاسق اور کمینے ہیں جنہوں نے محفل ذکرکاجال حقیر اور معمولی دنیا کے شکار کے لئے لگا رکھاہے اور اپنے بدترین سفلی جذبات کی تسکین کے لئے محفل ذکر کو آڑبنایا اور ہم اس میں کسی ایک کے تعین کاارادہ نہیں رکھتے کیونکہ الله تعالٰی ہی ان کے حالات سے پوری طرح آگاہ اور واقف ہے. مختصرا مجموعة رسائل ابن عابدین، ١٧٢/١)

اور فرمایا ابن کمال پاشا سے

ما في التواجد إن حققت من حرج

ولا التمايل إن أخلصت من باس 

فقمت تسعى على رجل وحق لمن

دعاه مولاه أن يسعى على الراس 

الرخصة فيما ذكر من الأوضاع، عند الذكر والسماع، للعارفين الصارفين أوقاتهم إلى أحسن الأعمال، السالكين المالكين لضبط أنفسهم عن قبائح الأحوال، فهم لا يستمعون إلا من الإله، ولا يشتاقون إلا له، إن ذكروه ناحوا ، وإن شكروه باحوا، وإن وجدوه صاحوا، وإن شهدوه استراحوا، وإن سرحوا في حضرة قربه ساحوا، إذا غلب عليهم الوجد بغلباته ، وشربوا من موارد إرادته، فمنهم من طرقته طوارق الهيبة فخر وذاب ومنهم من برقت له بوارق اللطف فتحرك وظاب، ومنهم من طلع عليه الحب من مطلع القرب سكر وغاب ، هذا ما عن لي في الجواب. (جو وجد حقیقت پرمبنی ہو اگر جھوم نا اخلاص سے ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں پھر توکھڑے ہو کر ایک پاؤں پر دوڑنے لگا جسے اس کا مولا بلائے اس پر واجب ہے کہ سر کے بل دوڑ پڑے۔ ذکر اور سماع کے وقت اوضاع مذکورہ کی اجازت ہے ان عارفین کے لئے ہے جو اپنے اوقات بہترین اعمال بجالانے میں صرف کرتے ہیں الله تعالی کی راہ اختیار کرتے ہیں، اپنے نفس کو قبیح اعمال سے روکنے پرقادرہوتے ہیں پھر وہ صرف الله تعالی ہی سے سنتے اور اسی کے مشتاق رہتے ہیں، اگر اس کی یاد میں مصروف ہوں تو نوحہ کرنے لگتے ہیں اگر اسے پالیں تو چیخنے چلانے لگتے ہیں بشرطیکہ وہ وجد سے مغلوب ہوں، پھر ان میں کوئی وہ ہیں جنہیں مصائب الٰہی نے جھنجھوڑا تو گر پڑے اور پگھل گئے اور ان میں کوئی وہ ہیں جن پرلطف وکرم کانزول ہوا تو خوش ہوکر متحرک ہوگئے میرے لئے یہی جواب ظاہر ہوا اور الله تعالی راہ صواب کو خوب جاننے والا ہے الرد المحتار، ٢٥٩/٤) والله اعلم

کتبه: ندیم ابن علیم المصبور العینی ١١/ ربیع الاول، ١٤٤٠

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ