Headlines
Loading...


اکثر احمق وہابیہ میں سے یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کل بدعة ضلالة یعنی ہر بدعت گمراہی ہے لہذا کوئی بھی بدعت حسنہ نہیں. (نعوذ بالله) 

اس حدیث میں بدعت سے مراد شرعی بدعت یعنی بدعت سیئہ ہے حدیث کا مفہوم ہوگا ہر بدعت سیئہ گمراہی ہے یعنی دین میں ہر وہ نیا امر جو کسی سنت کے خلاف ہو گمراہی ہے

کسی نئے کام کے شرعی بدعت ہونے کی شرط ہے کہ وہ امر قرآن و سنت واجماع کے مخالفت کرتا ہو یا اس سے سنت ترک ہو ورنہ وہ اپنی اصل میں شرعی بدعت نہیں بلکہ بدعت لغویہ ہے. اور بدعت لغویہ مباح بھی ہوتی مستحب بھی، مندوب بھی کبھی حرام اور بعض دفعہ واجب بھی. اس کی دلیل یہ ہے کہ اس حدیث میں حضور نے اپنی سنت، خلفاء کی سنت کو مضبوطی سے تھامنے کی ترغیب دی، فرمایا: فعلیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدين المھدیین. اگر ہر نیا کام مطلقا بدعت ہی ہوتا تو اس کے مقابلے میں سنت کی پیروی کی ترغیب نہیں دی جاتی. سنت پر مضبوطی کی ترغیب تو تب ہی ہے جب اس کے مقابلے میں کوئی دوسرا عمل پیدا کر لیا جائے اور یہی ترغیب ثابت کرتی ہے کہ بدعت وہ امر ہے جو سنت کے مخالف ہو اس کی توضیح میں ابن حبان رحمہ الله نے بھی یہی کہا ولم یعرج علی غیرھا من لاراء یعنی اس سنت کے علاوہ دوسری آراء کو آگے نہیں کرے گا. لہذا بدعت وہ عمل ہے جو کسی سنت کے خلاف ہو

علامہ ابن اثیر جزری فرماتے ہیں وعلی ھذا التاویل یحمل الحدیث الآخر کل محدثة بدعة انما يريد ما خالف اصول الشریعة و يوافق السنة. (النہایہ فی غریب الحدیث والاثر، 106/1) 

یعنی ان دلائل کے بناء پر حدیث کل محدثة بدعة کی وضاحت یوں ہوگی کہ اس سے مراد وہ نیا کام ہوگا جو اصول شریعت کے خلاف ہو اور سنت سے کوئی مطابقت نہ رکھتا ہو

اِمام ملا علی قاری حدیث مبارکہ کل بدعة ضلالة کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: أی کل بدعة سيئة ضلالة، لقوله عليه الصلوة والسلام : من سن فی الاسلام سنّة حسنة فله اجرها وأجر من عمل بها وجمع أبوبکر وعمر القرآن و کتبه زيد فی المصحف وجدد فی عهد عثمان. (مرقاة المفاتيح شرح مشکاة المصابيح، 216/1)

یعنی ہر بری بدعت گمراہی ہے کیوں کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا تو اس کو اس عمل کا اور اس پر عمل کرنے والے کا اجر ملے گا اور یہ کہ حضرت شیخین ابوبکر رضی الله عنہ اور عمر رضی الله عنہ نے قرآن کریم کو جمع کیا اور حصرت زید رضی الله عنہ نے اس کو صحیفہ میں لکھا اور عہد عثمانی میں اس کی تجدید کی گئی

امام ابن حجر مکی فرماتے ہیں

المراد من قوله صلی الله تعالی عليه وآله وسلم من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منه ماینا فیه اولا یشھد له قواعد الشرع والادلة العامة. (مجموعہ فتاوٰی، کتاب الحظر والاباحة، 2/9)

یعنی حدیث کی مراد یہ ہے کہ وہی نو پیدا چیز بدعت سیئہ ہے جو دین وسنت کا رد کرے یا شریعت کے قواعد اطلاق ودلائل عموم تک اس کی گواہی نہ دیں

وفی الحديث کل بدعة ضلالة وکل ضلالة فی النار وهو محمول علی المحرمة لا غير. (الفتاوی الحديثيه، ص: 130)

یعنی حدیث میں ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جائے گی اس حدیث کو بدعتِ محرمہ پر محمول کیا گیا ہے اس کے علاوہ اور کسی پر نہیں

محمد بن علوی المالکی فرماتے ہیں ان المراد بذلك بدعة السیئة التی لاتدخل تحت اصل شرعی. (مفاھیم یجب ان تصحح، ص: 102)

یعنی اس سے مراد وہ بدعت سیئہ ہے جو اصول شرعی کے تحت داخل نہ ہو

مولوی شبیر احمد عثمانی دیوبندی لکھتے ہیں قال علی قاری قال فی الازھار أی کل بدعة سیئة ضلالة لقوله علیه الصلوۃ والسلام [من سن فی الاسلام سنة حسنة فله اجرها واجر من عمل بها]  (فتح الملھم، 406/2)

یعنی ملا علی قاری الازھار میں بیان فرماتے ہیں کل بدعة ضلالۃ سے ہر بدعت سئیہ کا گمراہی ہونا مراد ہے اس پر حضور ﷺ کا یہ قول دلیل ہے [جس نے اچھا طریقہ ایجاد کیا تو اس کو اپنے ایجاد کرنے کا ثواب بھی ملے گا اور جو اس طریقے پرعمل کریں گے ان کا اجر بھی اسے ملے گا

 کتبه: ندیم ابن علیم المصبور العینی گونڈی ممبئی ٢/ ربیع الاول، ١٤٤٠؛ 

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ