Headlines
Loading...


(مسئلہ) کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین کہ زید نے بکر سے کہا کہ مجھے بیس ہزار روپیے چاہیے چار پانچ مہینہ بعد تین چار ہزار روپیے ملا کر واپس کردونگا حالانکہ نہ سود کے مقصد سے لیا نہ ہی دیا تو اب یہ بتائیے کہ کیا اس کے باوجود وہ روپیے سود میں شمار کیا جائگا یا نہیں؟

الجواب قرض دیتے وقت شرط ہوئی ہو کہ اتنے اضافہ کے ساتھ رقم دے گا تو یہ بیشک سود، حرام قطعی وگناہ کبیرہ ہے ایسا قرض دینے والا ملعون اور لینے والا بھی اسی کے مثل ملعون ہے اگر بے ضرورت شرعیہ قرض لیا ہو اور اگر بطور خوشی دینے کی نیت کی ہو تو بغیر شرط اور بغیر قرض کی نسبت سے ہدیہ دینا جائز ہے. شرط کے ساتھ اور قرض لینے کی وجہ سے ہدیہ دینا یا زائد روپیے دینے کا وعدہ کرنا جائز نہیں جیسا مسئلہ میں بیان کیا گیا

بہار شریعت میں بحوالہ در مختار ہے جتنا لیا ہے ادا کے وقت اُس سے زیادہ دیتا ہے مگر اس کی  شرط نہ تھی یہ بھی جائز ہے۔ (بہار شریعت، قرض کا بیان، مسئلہ: ١٩)

جس پر قرض ہے اُس نے قرض دینے والے کو کچھ ہدیہ کیا تو لینے میں حرج نہیں جبکہ ہدیہ دینا قرض کی وجہ سے نہ ہو بلکہ اس وجہ سے ہو کہ دونوں  میں   قرابت یا دوستی ہے یا اُس کی  عادت ہی میں جود وسخاوت ہے کہ لوگوں کو ہدیہ کیا کرتا ہے اور اگر قرض کی وجہ سے ہدیہ دیتا ہے تو اس کے لینے سے بچنا چاہیے. (بہار شریعت، قرض کا بیان، مسئلہ: ٢٢)

عن عمارة الهمداني قال: سمعت عليا يقول: قال رسول الله ﷺ: كل قرض جر منفعة فهو ربا. (إتحاف الخیرۃ المهرۃ، ٣٨٠/٣؛ مسند الحارث، م: ٤٣٧)

حضرت علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا نبی کریم ﷺ نے: قرض پر جو نفع حاصل کیا جائے وہ سود ہے

اور صحابی رسول فضلہ بن عبید رضی الله عنہ فرماتے ہیں: كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا (السنن الکبری للبیہقی، م: ١٠٩٣٣) 

امام ابراہیم نخعی رحمہ الله بھی یہی فرماتے ہیں عن الحكم، عن إبراهيم، قال: كل قرض جر منفعة، فهو ربا (المصنف ابن أبی شیبہ، م: ٢٠٦٩٠)

عن ابن سيرين قال: كل قرض جر منفعة فهو مكروه (المصنف لعبد الرزاق، م: ١٤٦٥٧)

ابن سیرین رحمہ الله علیہ فرماتے ہیں ہر وہ قرض جس سے نفع حاصل کیا جائے وہی مکروہ ہے

امام طحاوی فرماتے ہیں: حرم كل قرض جر نفعا (شرح معانی الآثار، جلد: ٤، ص: ٥٩، ٩٩) 

حرام ہے ہر وہ قرض جس سے نفع حاصل کیا جائے

قال شیخنا فیضان المصباحی قرض دیتے وقت زائد لینے دینے کا بالکل کوئی ذکر نہ تھا نہ صراحتاً نہ اشارتاً نہ دلاتاً، اب واپسی کے وقت قرض لینے والا اپنی خوشی سے کچھ زائد دیتا ہے تو یہ سود نہیں ہے

مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں

نبی کریم ﷺ کے فعل اور ارشاد سے اس کا جواز ثابت. حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں 

كان لي على النبي ﷺ دين، فقضاني وزادني (سنن أبی داود، م: ٣٣٤٧؛ صحيح البخاری، م: ٤٤٣، ٢٣٩٤، ٢٦٠٣؛ صحيح مسلم، م: ٧١ -(٧١٥)؛ مسند احمد، م: ١٤٢٣٥، ١٤٤٣٢) 

یعنی میرا کچھ قرضہ حضور کے ذمہ تھا حضور نے اسے ادا فرمادیا اور زیادہ دیا

شیخ محقق محدث دہلوی فرماتے ہیں لم یکن الزیادہ فی صلب العقد. یہ زیادت نفس عقد میں مشروط نہ تھی لہذا جائز ہے. (فتاوٰی امجدیہ، ٢١٤/٣). والله اعلم ورسوله اعلم. 

 کتبه: ندیم ابن علیم المصبور العینی 

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ