Headlines
Loading...


(سئل) کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام کہ امام نے سمیع الله لمن حمدہ کی جگہ الله اکبر کہا پھر سجدہ سہو کیا اس میں بھی ایک ہی سجدہ کیا اور نماز اختتام کو پہنچی سوال یہ ہے کہ نماز ہوئی یا نہیں حوالہ عنایت فرمائیں

المستفتی عبد المالک بنارس

(فأجاب) سمع الله لمن حمدہ کی جگہ تکبیر کہنا سجدہ سہو واجب نہیں کرتا

قال المجدد رحمه الله (جماعت میں امام نے سمع الله لمن حمدہ کی جگہ الله اکبر کہا تو) نماز ہوگئی اور سجدہ سہو کی اصلاً حاجت نہیں (فتاوی رضویہ ٢١٦/٨)

صورت مستفسرہ میں امام نے مسئلہ سے ناواقفیت کی بنا پر سجدہ سہو کیا جو کہ اصلا ضروری نہیں تھا ایسی نماز باجماعت کے بارے میں مجدد رحمہ الله فرماتے ہیں امام و مقتدیانِ سابق کی نماز ہوگئی جو مقتدی اس سجدہ سہو میں جانے کے بعد ملے ان کی (یعنی مسبوق کی) نماز نہیں ہوئی (اس سجدہ سہو میں اقتداء کے سبب) (فتاوی رضویہ ١٨٥/٨)

اور فرمایا بے حاجت سجدہ سہو نماز میں زیادت اور ممنوع ہے مگر نماز ہوجائے گی ہاں اگر یہ امام ہے تو جو مقتدی مسبوق تھا - یعنی بعض رکعات اس نے نہیں پائی تھیں وہ اگر اس سجدہ بے حاجت میں اسکا شریک ہوا تو اس کی نماز جاتی رہے گی لأنه اقتدی فی محل الانفراد (ایضا ٣٢٧/٦)

امام امجدی فرماتے ہیں جو مقتدی امام کے سجدہ سہو کا سلام پھیرنے کے بعد جماعت میں شامل ہوئے ان کی نماز نہیں ہوئی (دیگر کی ہوگئی) (فتاوی فیض الرسول ٣٤٣/١)

اور فرمایا اگر امام نے بلا ضرورت سجدہ سہو کیا تو مدرک یعنی وہ مقتدی جو پہلی رکعت سے آخر تک شریکِ جماعت رہے اور امام سب کی نمازیں ہوجائیں گی اس لیے کہ جب سجدہ سہو واجب نہ ہو تو اس نیت سے (داہنی طرف) سلام پھیرتے ہی نماز تمام ہوجاتی ہے اور اگر وہ مسبوق ہے یعنی ایسا مقتدی ہے کہ جس کی چند رکعتیں چھوٹ گئیں اور امام نے بے جا سجدہ سہو کیا اور اس نے امام کی اتباع کی (اور اسے معلوم ہو کہ امام کا سجدہ سہو بلا ضرورت تھا) تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی (ہاں اگر معلوم نہ ہوا تو اس کے لئے حکم فساد نہیں) (فتاوی فقیہ ملت ٢١٧/١)

فتاوی رضویہ میں قاضی خاں سے ہے

إذا ظن الإمام أن علیه سهوا فسجد للسهو و تابعه المسبوق فی ذلك ثم علم أن صلوته تفسدو ان لم یعلم انه لم یکن علي الامام سهو لم تفسد صلوۃ المسبوق (فتاوی رضویہ ١٨٦/٨ فتاوی قاضیخان ٩٤/١ فتاوی ہندیہ ١٠٢/١ فتاوی ولواجیہ ١٣٦/١ فتاوی تاتارخانیہ ٤٦٩/١ محیط البرہانی ٢٠٧/٢)

جب امام کو یہ گمان ہو کہ اس پر سجدہ سہو ہے اور اس نے سجدہ سہو کیا اور مسبوق نے بھی اس کی اتباع میں سجدہ کیا پھر اس نے جانا کہ امام پر سجدہ سہو نہ تھا تو ( یہی مفتی بہ ہے کہ) اس کی نماز فاسد ہوگی اور اگر اسے اس بات کا علم نہیں کہ امام پر سجدہ سہو نہیں تھا تو مسبوق کی نماز فاسد نہ ہوگی

صورت مستفسرہ میں بھی امام اور مدرک کی نماز مکمل ہوجائے گی اس لیے کہ جب سجدہ سہو واجب نہ ہو تو اس نیت سے سلام پھیرتے ہی نماز تمام ہوجاتی ہے یعنی نماز کی تکمیل کا انحصار سلام پھیرنے پر ہے اگرچہ وہ بلا ضرورت سجدہ کا سلام ہو بلا ضرورت سجدہ سہو کے مکمل دو سجدے کرنا شرط تکمیل نہیں ان الله عليم الحكيم

کتبه: ندیم ابن علیم المصبور العینی

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ