Headlines
Loading...
حالت سفر میں وتر سنتیں نوافل پڑھی جائیں یا نہیں؟

حالت سفر میں وتر سنتیں نوافل پڑھی جائیں یا نہیں؟


(مسئلہ) حالت سفر میں وتر سنتیں نوافل پڑھی جائیں یا نہیں؟ 

(الجواب) وتر پڑھنا سفر میں بھی اسی طرح ہے جس طرح حضر میں لقوله صلی الله تعالی عليه وآله وسلم إن الله زادكم صلاة، وهي الوتر، فصلوها فيما بين صلاة العشاء إلى صلاة الفجر (مسند أحمد ٢٣٨٥١ ٢٧٢٢٩ الله عز وجل نے تم پر ایک نماز زیادہ فرمائی. وہ وتر ہے تو اسے عشاء اور فجر کے درمیان پڑھو)

حالت فرار یعنی خوف اور رواروی کی حالت میں سنت مؤکدہ مسافر پر معاف ہے لیکن حالت قرار وامن میں معاف نہیں. سنت غیر مؤکدہ یا نوافل پڑھنے نہ پڑھنے پر اختیار ہے اور ان سب میں قصر نہیں. قال المجدد رحمه الله : حالت قرار (یعنی ٹھہراؤ) میں کسی نماز کی سنت معاف نہیں اور حالتِ فرار (یعنی چلتے میں جب خوف لاحق ہو) میں سب کی معاف ہیں، مطلقاً معافی کا حکم دینا غلط اور اس معافی کو قصر کے ساتھ خاص کرنا دوسری غلطی، در مختار میں ہے: یاتی المسافر بالسنن ان کان فی حال امن وقرار والا بان کان فی حال خوف وفرار لایاتی بها ھو المختار (یعنی حالت امن و قرار میں مسافر سنتیں ادا کرے ورنہ یعنی حالتِ خوف و فرار میں نہ ادا کرے، یہی مختار ہے الدرالمختارکر کتاب الصلوۃ، باب صلوۃ المسافر ۱ /۱۰۸ فتاوی رضویہ، ٦١٣/٢٧)

قال الفقيه الأمجدی عليه الرحمة اگر سفر میں اطمینان نہ ہو (یعنی جاری سفر میں جب ٹھہرا نہ کسی شئے کا خوف ہو) تو سنتوں کے ترک میں کوئی قباحت نہیں اور اطمینان ہو جب بھی سنن کا جو تاکد حضر میں ہوتا ہے وہ سفر میں نہیں ہوتا کہ سفر خود قائم مقام مشقت ہے(عبارت در مختار) یہ حکم سنت فجر کے غیر کا ہے اور سنت فجر چونکہ قریب بوجوب ہے لہذا سفر کی وجہ سے اس کے ترک کی اجازت نہیں اور بعض ائمہ کا یہ قول بھی ہے کہ مغرب کی سنتیں بھی ترک نہ کرے کہ کیونکہ حضور اقدس صلی الله تعالی عليه وسلم نے سفر وحضر کہیں بھی اسے ترک نہیں کیا. (فتاوی امجدیہ، ٢٨٤/١)

 والله تعالی اعلم

کتبہ ندیم العلیم المصبور العینی ممبئی مہاراشٹر انڈیا

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ