Headlines
Loading...


(مسئلہ) کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسںٔلہ میں کہ بیوی کی دبر میں جماع کرنا اور نجومی کے پاس فال کھلوانا غیبی خبریں اور ان سب کو جاںٔز سمجھ کر کرنے سے کیا کافر ہو جائے گا؟ اور کیا یہاں کافر سے مراد شرعی کافر ہے یعنی اس کا ایمان برباد ہو گیا اور وہ تجدید ایمان کرے یا پھر لغوی معنی میں ناشکری ہے ؟

(الجواب) نجومی کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ یقینی غیب جانتا ہے کفر ہے محض اس کے جانے فال کھلوانے سے کافر نہ ہوجائے گا ہاں فاسق وگنہگار ہوگا  یہاں میری مراد شرعی کافر ہے قال الإمام رحمه الله کاہنوں اور جوتشیوں سے ہاتھ دکھا کر تقدیر کا بھلا برا دریافت کرنا اگر بطور اعتقاد ہو یعنی جویہ بتائیں حق ہے تو کفر خالص ہے (فتاوی رضویہ ١٥٥/٢١)

بیوی کے دبر میں جماع کرنا بالاتفاق فقہاء حرام ہے بعض اسے حرام قطعی جانتے ہیں بعض کے نزدیک یہ حرام لغیرہ ہے یعنی اس شخص کے کفر میں اختلاف ہے جو حائضہ سے جماع یا دبر میں وطی کو حلال اعتقاد کرے پھر بھی احتیاط یہی ہے کہ وہ توبہ وتجدید ایمان ونکاح کرے آپ نے غالبا یہ حدیث مبارکہ دیکھی ہوگی من أتی حائضا أو امرأة في دبرها أو کاهنا فقد کفر بما أنزل علی محمد ﷺ (سنن الترمذی م ١٣٥ حدیث صحیح جس نے کسی حائضہ سے یا دبر میں کسی عورت سے جماع کیا یا کاہن کے پاس آیا تو اس نے کفر کیا اس سے جو نبی کریم ﷺ پر نازل ہوا) امام ترمذی نقل کے بعد فرماتے ہیں وإنما معنی هذا عند أهل العلم علی التغليظ، وقد روي عن النبي صلی الله عليه وسلم قال من أتی حائضا فليتصدق بدينار فلو کان إتيان الحائض کفرا لم يؤمر فيه بالکفارة وضعف محمد هذا الحديث من قبل إسناده یعنی اہل علم کے نزدیک ایسا فرمانا پرزور ممانعت کے لیے ہے۔ نبی کریم ﷺ سے مروی ہے کہ جو حائضہ سے صحبت کرلے تو ایک دینار صدقہ کرے پس اگر حائضہ سے مباشرت (شرعی) کفر ہوتی تو کفارہ کا حکم نہ فرماتے اور امام ترمذی فرماتے ہیں امام بخاری نے اس حدیث کو سند کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے امام مناوی فرماتے ہیں وليس المراد حقيقة الكفر وإلا لما أمر في وطء الحائض بالكفارة كما بينه الترمذي وغيره (فیض القدیر ٢٤/٦) امام ترمذی نے جو کچھ کہا اس کے مطابق یہاں کفر سے مراد لغوی کفر ہے جیسا کہ اس آیت میں وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ (البقرۃ ١٥٢) اور میرا حق مانو اور میری ناشکری نہ کرو (کنز الایمان) اور حائضہ سے جماع کے بارے میں مجمع الانہر میں ہے واختلف في تكفيره فقد جزم صاحب المبسوط والاختيار وفتح القدير وغيرهم بكفره لأن حرمته ثبتت بنص قطعي وفي النوادر عن محمد أنه لا يكفر وصحح هذه الرواية صاحب الخلاصة (مجمع الأنهر ٨٠/١) امام حصکفی فرماتے ہیں ووطؤها يكفر مستحله كما جزم به غير واحد، وكذا مستحل وطء الدبر عند الجمهور مجتب وقيل لا يكفر في المسألتين وهو الصحيح خلاصة (حاشیة ابن عابدین ٤٩٣/١) امام تفتازانی فرماتے ہیں وذكر السرخسى فى كتاب الحيض أنه لو استحل وطء امرأته الحائض يكفر وفي النوادر عن محمد رحمة الله أنه لا يكفر وهو الصحيح وفي استحلاله اللواطة بامرأته لا يكفر على الأصح (شرح رمضان أفندي على شرح السعد ص ٥٠٩) والله تعالی اعلم

کتبہ ندیم ابن علیم المصبور العینی ممبئی مہاراشٹر انڈیا 

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ