Headlines
Loading...


تجوید کی کتاب فوائد مکیہ میں لکھا ہے کہ حافہ ٔ لسان جب ڈاڑھ سے ملتا ہے تو ضاد ادا ہوتا ہے۔ اور کتب فقہ کے جزئیات سے پتہ چلتا ہے کہ حروف کی ادایگی اپنے مخارج سے ضروری ہے ورنہ بعض صورتوں میں نماز فاسد ہو جاتی ہے دریں صورت کوئی شخص سورۂ فاتحہ میں ضالین کے بجاے دالین پڑھتا ہے تو

////////////////////

 قانون شریعت جصہ ۱ ص ۹۸ مکتبہ شمسیہ جون پور

( ) یعنی نماز پڑھنے والا اگر قصداً آمین اور بسم اللہ کے درمیان کچھ پڑھے گا تو سجدۂ سہو سے اس کی تلافی نہیں ہو سکتی ہے۔ محمود علی مشاہدیاس کے بارے میں شریعت حقہ کا کیا حکم ہے؟ اور ایسے شخص کی امامت کا کیا حکم ہوگا؟ جب کہ اس کے مقتدیوں میں سے بعض، حروف کو اپنے مخارج سے ادا کرنے پر مکمل قدرت رکھتے ہیں اس کے مقتدیوں کی نماز ہوگی یا نہیں؟

بعض لوگ کہتے ہیں کہ سورۂ فاتحہ میں دآلین پڑھا جائے اور بقیہ جگہوں میں ضاد ہی پڑھیں یہ فرق کرنا کہاں تک صحیح ہے ؟ جواب با صواب سے مع حوالہ کتب فقہ معتبرہ سے نوازیں

حافظ محمد ایوب امام مسجد پنیروا پوسٹ بیلوا ضلع کٹیہار بہار ۱۸؍ شوال ۱۴۱۲

الجوابــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

اس مسئلے کی پوری تفصیل مجدد اعظم امام احمد رضا قدس سرہ کے رسالہ مبارکہ الجام الصاد عن سنن الضاد میں مذکور ہے یہ رسالہ علاحدہ بھی چھپا ہے اور فتاوی رضویہ جلد سوم میں بھی چھپ چکا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے

(۱) تجوید کا سیکھنا واجب ہے علامہ جزری لکھتے ہیں

الأخذ بالتجوید حتم لازم من لم یجود القرآن فہو آثم 

ہر شخص پر واجب ہے کہ قرآن مجید کے حروف کو ان کے مخارج کے ساتھ ادا کرے اور جو اس پر قادر نہیں اس پر واجب ہے کہ شب وروز صحیح ادا کرنےکی مشق کرے یعنی قوت لایموت اور ضروریات زندگی کے لیے کسب معاش سے جو وقت فاضل ہو اس میں مشاقی کی کوشش کرے حتی کہ اگر اس میں کمی کرے گا تو اس کی خود اپنی نماز نہ ہوگی اور اگر اس کے لیے کوشش کرے تو بدرجۂ مجبوری اس کی نماز صحیح ہوگی

(۲) جو شخص کسی بھی حرف کو صحیح ادا کرنے پر قادر نہیں اور جماعت میں کوئی شخص ایسا ہے جو صحیح ادا کرنے پر قدرت رکھتا ہے تو کسی کی نماز صحیح نہ ہوگی نہ امام کی نہ مقتدیوں کی، فرض ہے کہ امامت وہی شخص کرے جو صحیح خواں ہو

(۳) جو شخص کسی حرف کو صحیح ادا کرنے پر قادر نہیں وہ صرف ان لوگوں کی امامت کر سکتا ہے جو اس حرف کو صحیح ادا نہ کر پاتے ہوں۔ لیکن امام کسی حرف کو صحیح ادا نہیں کرپاتا اور مقتدی اس کو صحیح ادا کر لیتے ہیں لیکن مقتدی دوسرے حرف کو صحیح ادا نہیں کرپاتے تو ان کی امامت وہ شخص نہیں کر سکتا۔(۴) قرآن مجید کے کسی حرف کو بالقصد دوسرے حرف سے بدلنا کفر ہے اس لیے کہ یہ تحریف قرآن ہے۔ اب آپ اپنے سوال کا جواب لیجیے ض اور د دو الگ الگ حرف ہیں جن کے مخارج الگ الگ اور امتیازی صفات الگ الگ اور ان کی آواز بھی الگ الگ اس لیے ضالین کو دالین پڑھنا اگر بالقصد ہو تو کفر اور پڑھنے والے کی نماز تو نماز اس کا ایمان بھی رخصت اسی طرح جو یہ کہے ضالین کو دالین پڑھنا چاہیے وہ بھی کافر ہاں اگر کوئی شخص ض کو اس کے صحیح مخرج کے ساتھ ادا کرنے پر قادر نہیں اور وہ بدرجۂ مجبوری ض کو د پڑھتا ہے تو اب دو صورتیں ہیں وہ شخص بقدر وسعت ض کو صحیح مخرج اور صفات کے ساتھ ادا کرنے کی جد وجہد کرتا ہے یا نہیں اگر کرتا ہے تو اس کی اپنی نماز صحیح اور اگر نہیں کرتا تو اس کی خود اپنی نماز صحیح نہیں۔ اور اگر نمازیوں میں سب ایسے ہی ہیں جو ض کو صحیح مخرج سے ادا نہیں کر پاتے تو ان کی امامت کر سکتا ہے اور اگر نمازیوں میں کوئی ایک شخص بھی ایسا ہو جو ض کو صحیح مخرج سے ادا کر سکتا ہے تو کسی کی نماز صحیح نہیں نہ امام کی نہ مقتدیوں کی نہ خود اس شخص کی جو صحیح ادا کرنے پر قادر ہے اس صورت میں فرض ہے کہ وہی امام بنایا جائے جو صحیح ادا کرنے پر قادر ہے یہ مسئلہ غنیہ تنویر الابصار در مختار رد المحتار وغیرہ میں پوری تفصیل کے ساتھ مذکور ہے 

حرف کی ادایگی کی صحت صرف مخرج ہی پر نہیں بلکہ ہر حرف کے لیے کچھ صفات لازمہ ہیں جب تک ان صفات کی بھی پابندی نہیں کی جائے گی حرف صحیح ادا نہ ہوگا آپ نے ض کا مخرج فوائد مکیہ کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے وہ بھی مبہم ہے تفصیل یہ ہے ض کا مخرج زبان کی داہنی یا بائیں کروٹ ہے یوں کہ اکثر پہلوے زبان حلق سے نوک کے قریب تر اس جانب کی ان بالائی داڑھوں کی طرف جو وسط زبان کے محاذی ہیں قریب ملاحق ہوتا ہوا کچلیوں کی طرف دراز ہو یہاں تک کہ شروع مخرج لام تک بڑھے زبان کی کروٹ داڑھوں سے متصل ہو باقی زبان اس حرکت میں اوپر کو مل کر کے تالو سے نزدیکی پائے دانتوں یا زبان کی نوک کا اس میں کچھ حصہ نہیں وہ ان قوی حرفوں میں سے ہے جو ادا ہوتے وقت اپنے مخرج پر اعتماد قوی مانگتے ہیں جس قدر سانس ان کی آواز میں سینے سے باہر آتی ہے سب کو اپنی کیفیت میں رنگ لیتے ہیں کہ کوئی پارہ سانس کا ان کے ساتھ جدا چلتا معلوم نہیں ہوتا جب تک ان کی آواز ختم نہ ہولے سانس بند رہے گی ایسے حرفوں کو مہجورہ کہتے ہیں بخلاف د کے کہ اس کا مخرج زبان کی نوک اور اوپر کے اگلے دو دانتوں کی جڑ ہے علاوہ ازیں ض میں اطباق ہے اور د میں انفتاح۔ مزید اور صفات میں بھی تخالف ہے یہ تو صرف آپ کی معلومات کے لیے لکھا گیا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ بغیر کسی ماہر قاری سے مشق کیے ہوئے صحیح تلفظ ادا کرنا قریب محال ہے واللہ تعالی اعلم

نقل شدہ فتاویٰ حافظ ملت جلد دوم صفحہ نمبر ٤٠٤ // ٤٠٥ // ٤٠٦ // ٤٠٧

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ