Headlines
Loading...


سوال کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل میں کہ ایک شخص نماز پڑھ رہا ہے اور حالت قیام میں ناک سے رینٹھ صاف کر نے کی ضرورت ہوتو کس ہاتھ سے صاف کر ےگا صاف نہ کرنے کی صورت میں مسجد آلودہ ہوجاۓ گی کتاب و سنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں

الجواب بعون الملك العزيز الوهاب 

حالت قیام میں اگر ایسی صورت آ پڑے تو بائیں ہاتھ سے صاف کر ے اس لیے کہ دایاں ہاتھ کھانے پینے کے لیے ہے اور دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر فضیلت حاصل ہے اور بایاں ہاتھ مستقذرات دور کرنے کے لیے ہے

اگر دائیں ہاتھ سے صاف کر ے گا تو کھانے کے وقت اگر یاد آجاۓ تو طبیعت متنفر ہوجائیگی کیونکہ یہ ایسی چیز ہے جس سے لوگوں کو گھن ہوتی ہے اور اسے ناپسند کرتے ہیں 

عمدة القاري میں ہے 

قلت روى ابو داود بسند صحيح من حديث عائشه رضي الله عنها قالت كانت يد رسول الله صلى الله عليه وسلم اليمنى لطهوره و طعامه وكانت يده اليسرى لخلائه وما كان من اذی وروى ايضا من حديث حفصة زوجة النبي عليه الصلاة والسلام قالت كان يجعل يمينه لطعامه و شرابه و لباسه ويجعل شماله لما سوي ذالك وظاهر هذا يدل على عموم الحكم على انه قد روي النهي عن مسه باليمين مطلقا غير مقيد بحالةالبول 

چند سطر کے بعد فرماتے ہیں 

قلت ( النھی) للتنزيه عند الجمهور لان النهي فيه لمعنيين احدهما لرفع قدر اليمين والآخر انه لو باشر النجاسة بها يتذكر عند تناوله الطعام ما باشرت يمينه من النجاسة فينفر طبعه من ذالك و حمله اهل الظاهر على التحريم 

عمدة القاري جلد ٢ صفحة ٤٢٠ طبع بيروت لبنان

 حاشیہ الطحطاوی علی المراقی میں ہے 

( قوله فلا بتمسح بيمينه ) قال العيني في شرح البخاري و النهي للتنزيه عند الجمهور لأنه لمعنيين أحدهما رفع قدر اليمين و الآخر أنه لو باشر بها النجاسة ربما يتذكر عند مناولة الطعام ما باشرت يمينه فينغر طبعه عن ذالك ( ص ٣٠ فصل فيما يجوز به الاستنجاء طبع مصر ) 

یہی وجہ ہے کہ استنثار بھی بائیں ہاتھ سے کرنے کا حکم ہے

بخاری شریف کی یہ حدیث بھی اسی کی طرف رہنمائی کرتی ہے ۔ آئیے پہلے حدیث ملاحظہ کریں 

ﺣَﺪَّﺛَﻨَﺎ ﻣَﺎﻟِﻚُ ﺑْﻦُ ﺇِﺳْﻤَﺎﻋِﻴﻞَ ﻗَﺎﻝَ ﺣَﺪَّﺛَﻨَﺎ ﺯُﻫَﻴْﺮٌ ﻗَﺎﻝَ ﺣَﺪَّﺛَﻨَﺎ ﺣُﻤَﻴْﺪٌ، ﻋَﻦْ ﺃَﻧَﺲِ ﺑْﻦِ ﻣَﺎﻟِﻚٍ ﺃَﻥَّ اﻟﻨَّﺒِﻲَّ ﺻَﻠَّﻰ اﻟﻠﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ ﺭَﺃَﻯ ﻧُﺨَﺎﻣَﺔً ﻓِﻲ اﻟﻘِﺒْﻠَﺔِ ﻓَﺤَﻜَّﻬَﺎ ﺑِﻴَﺪِﻩِ ﻭَﺭُﺋِﻲَ ﻣِﻨْﻪُ ﻛَﺮَاﻫِﻴَﺔٌ ﺃَﻭْ ﺭُﺋِﻲَ ﻛَﺮَاﻫِﻴَﺘُﻪُ ﻟِﺬَﻟِﻚَ ﻭَﺷِﺪَّﺗُﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻭَﻗَﺎﻝَ «ﺇِﻥَّ §ﺃَﺣَﺪَﻛُﻢْ ﺇِﺫَا ﻗَﺎﻡَ ﻓِﻲ ﺻَﻼَﺗِﻪِ ﻓَﺈِﻧَّﻤَﺎ ﻳُﻨَﺎﺟِﻲ ﺭَﺑَّﻪُ ﺃَﻭْ ﺭَﺑُّﻪُ ﺑَﻴْﻨَﻪُ ﻭَﺑَﻴْﻦَ ﻗِﺒْﻠَﺘِﻪِ ﻓَﻼَ ﻳَﺒْﺰُﻗَﻦَّ ﻓِﻲ ﻗِﺒْﻠَﺘِﻪِ ﻭَﻟَﻜِﻦْ ﻋَﻦْ ﻳَﺴَﺎﺭِﻩِ ﺃَﻭْ ﺗَﺤْﺖَ ﻗَﺪَﻣِﻪِ» ﺛُﻢَّ ﺃَﺧَﺬَ ﻃَﺮَﻑَ ﺭِﺩَاﺋِﻪِ ﻓَﺒَﺰَﻕَ ﻓِﻴﻪِ ﻭَﺭَﺩَّ ﺑَﻌْﻀَﻪُ ﻋَﻠَﻰ ﺑَﻌْﺾٍ ﻗَﺎﻝَ «ﺃَﻭْ ﻳَﻔْﻌَﻞُ ﻫَﻜَﺬَا»

اس مبارک حدیث کا آخری ٹکڑا ثم أخذ طرف ردائه الخ سے اس پر روشنی پڑتی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بزاق شریف کو چادر پاک کے کنارے میں لے کر مل دیا اور فرمایا کہ بوقت حاجت مصلی ایسا کرے ظاہر ہے کہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنے دست چپ ہی سے ایسا کر کے دیکھایا ہے ۔ لہذا حالت قیام میں مصلی اپنے بائیں ہاتھ سے ہی حاجت کے وقت ناک صاف کرے 

هذا ما ظهر لي 

فإن أصبت فمن الله تعالى و الا فمني و من الشيطان الرجيم. 

و الله تعالى اعلم بالصواب  

كتبه محمد پرویز عالم متخصص فی الفقہ الحنفی جامعہ سعدیہ عربیہ کیرالا

الجواب صحيح محمد أشفاق أحمد رضوي مصباحي جامعه السعدية العربية كيرالا

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ