
(مسئلہ) اگر کوئی مرد (نعوذ بالله) اپنی بیٹی کو شہوت کی نظر سے دیکھے اور اسے شہوت کے ساتھ چھوئے تو شریعت میں اس کا کیا حکم ہے؟ کیا اس فعل کی وجہ سے بیوی شوہر کے نکاح سے نکل جائے گی؟ اور اگر نکل جائے تو دوبارہ نکاح کی کیا صورت ہوگی؟ براہ کرم قرآن وحدیث کے دلائل کے ساتھ وضاحت فرمائیں
(جواب) لڑکی جو مشتہاۃ یعنی نو برس سے عمر میں زیادہ ہو، اسے شہوت سے چھونے، گلے لگانے یہاں تک کہ سر پر جو بال ہوں یعنی وہ جو سر سے علیحدہ ہوکر لٹکتے نہ ہو یا ناخن چھونے سے بھی حرمت مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے مگر چھونے میں جب اتنا موٹا کپڑا درمیان میں حائل ہو کہ گرمی محسوس نہ ہوسکےحرمت ثابت نہیں ہوگی یہاں شہوت کے معنی یہ ہیں کہ آلہ منتشر ہوجائے اور اگر پہلے سے انتشار موجود تھا تو اب زیادہ ہو جائے یہ جوان کے لیے ہے بوڑھے کے لیے شہوت کی حد یہ ہے کہ دل میں حرکت پیدا ہو اور پہلے سے ہو تو زیادہ ہو جائے محض میلان نفس کا نام شہوت نہیں۔ اور اگر چھوتے وقت شہوت نہ تھی ہٹانے کے بعد ہوئی تو اس سے حرمت ثابت نہیں ہوگی نیز ایک شرط حرمت یہ ہے کہ یہ حرکت انزال کی طرف مودی نہ ہو اگر انزال ہوگیا حرمت نہ ہوئی صورت مستفسرہ میں اگر مذکور باتیں پائیں گی یا جن سے حرمت مصاہرت ثابت ہوتی ہے تو اس سے اگرچہ نکاح زائل نہیں ہوتا مگر عورت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی ہے اور اس شخص پر واجب ہوتا ہے کہ اسے چھوڑ دے اسی طرح فتاوی رضویہ (٣٢٢/١١) پر ہے اب اگر شوہر اقرار کرے تو یا اگر انکار کرے تو گواہان شرعی سے حرمت ثابت کی جائے گی۔ في الهندية (٣٠٣/١): ﻓﺈﻥ ﻧﻈﺮﺕ اﻟﻤﺮﺃﺓ ﺇﻟﻰ ﺫﻛﺮ اﻟﺮﺟﻞ ﺃﻭ ﻟﻤﺴﺘﻪ ﺑﺸﻬﻮﺓ ﺃﻭ ﻗﺒﻠﺘﻪ ﺑﺸﻬﻮﺓ ﺗﻌﻠﻘﺖ ﺑﻪ ﺣﺮﻣﺖ اﻟﻤﺼﺎﻫﺮﺓ ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﺠﻮﻫﺮﺓ اﻟﻨﻴﺮﺓ. ﻭﻻ ﺗﺜﺒﺖ ﺑﺎﻟﻨﻈﺮ ﺇﻟﻰ ﺳﺎﺋﺮ اﻷﻋﻀﺎء ﺇﻻ ﺑﺸﻬﻮﺓ ﻭﻻ ﺑﻤﺲ ﺳﺎﺋﺮ اﻷﻋﻀﺎء ﻻ ﻋﻦ ﺷﻬﻮﺓ ﺑﻼ ﺧﻼﻑ، ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﺒﺪاﺋﻊ ﺛﻢ ﻻ ﻓﺮﻕ ﻓﻲ ﺛﺒﻮﺕ اﻟﺤﺮﻣﺔ ﺑﺎﻟﻤﺲ ﺑﻴﻦ ﻛﻮﻧﻪ ﻋﺎﻣﺪا ﺃﻭ ﻧﺎﺳﻴﺎ ﺃﻭ ﻣﻜﺮﻫﺎ ﺃﻭ ﻣﺨﻄﺌﺎ ﻛﺬا ﻓﻲ ﻓﺘﺢ اﻟﻘﺪﻳﺮ ﺃﻭ ﻧﺎﺋﻤﺎ ﻫﻜﺬا ﻓﻲ ﻣﻌﺮاﺝ اﻟﺪﺭاﻳﺔ. ﻭﻟﻮ ﻣﺲ ﺷﻌﺮﻫﺎ ﺑﺸﻬﻮﺓ ﺇﻥ ﻣﺲ ﻣﺎ اﺗﺼﻞ ﺑﺮﺃﺳﻬﺎ ﺗﺜﺒﺖ ﻭﺇﻥ ﻣﺲ ﻣﺎ اﺳﺘﺮﺳﻞ ﻻ ﻳﺜﺒﺖ ﻭﺃﻃﻠﻖ اﻟﻨﺎﻃﻔﻲ ﺇﻃﻼﻗﺎ ﻣﻦ ﻏﻴﺮ ﻫﺬا اﻟﺘﻔﺼﻴﻞ ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﻈﻬﻴﺮﻳﺔ. ﻭﻟﻮ ﻣﺲ ﻇﻔﺮﻫﺎ ﺑﺸﻬﻮﺓ ﺗﺜﺒﺖ ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﺨﻼﺻﺔ. ﺛﻢ اﻟﻤﺲ ﺇﻧﻤﺎ ﻳﻮﺟﺐ ﺣﺮﻣﺔ اﻟﻤﺼﺎﻫﺮﺓ ﺇﺫا ﻟﻢ ﻳﻜﻦ ﺑﻴﻨﻬﻤﺎ ﺛﻮﺏ ﺃﻣﺎ ﺇﺫا ﻛﺎﻥ ﺑﻴﻨﻬﻤﺎ ﺛﻮﺏ ﻓﺈﻥ ﻛﺎﻥ ﺻﻔﻴﻘﺎ ﻻ ﻳﺠﺪ اﻟﻤﺎﺱ ﺣﺮاﺭﺓ اﻟﻤﻤﺴﻮﺱ ﻻ ﺗﺜﺒﺖ ﺣﺮﻣﺔ اﻟﻤﺼﺎﻫﺮﺓ ﻭﺇﻥ اﻧﺘﺸﺮﺕ ﺁﻟﺘﻪ ﺑﺬﻟﻚ ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﺭﻗﻴﻘﺎ ﺑﺤﻴﺚ ﺗﺼﻞ ﺣﺮاﺭﺓ اﻟﻤﻤﺴﻮﺱ ﺇﻟﻰ ﻳﺪﻩ ﺗﺜﺒﺖ ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﺬﺧﻴﺮﺓ ﻭﻳﺸﺘﺮﻁ ﺃﻥ ﺗﻜﻮﻥ اﻟﻤﺮﺃﺓ ﻣﺸﺘﻬﺎﺓ ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﺘﺒﻴﻴﻦ ﻭاﻟﻔﺘﻮﻯ ﻋﻠﻰ ﺃﻥ ﺑﻨﺖ ﺗﺴﻊ ﻣﺤﻞ اﻟﺸﻬﻮﺓ ﻻ ﻣﺎ ﺩﻭﻧﻬﺎ ﻛﺬا ﻓﻲ ﻣﻌﺮاﺝ اﻟﺪﺭاﻳﺔ ﻭﺣﺪ اﻟﺸﻬﻮﺓ ﻓﻲ اﻟﺮﺟﻞ ﺃﻥ ﺗﻨﺘﺸﺮ ﺁﻟﺘﻪ ﺃﻭ ﺗﺰﺩاﺩ اﻧﺘﺸﺎﺭا ﺇﻥ ﻛﺎﻧﺖ ﻣﻨﺘﺸﺮﺓ ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﺘﺒﻴﻴﻦ ﻭﻫﻮ اﻟﺼﺤﻴﺢ ﻛﺬا ﻓﻲ ﺟﻮاﻫﺮ اﻷﺧﻼﻃﻲ ﻭﺑﻪ ﻳﻔﺘﻰ ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﺨﻼﺻﺔ ﻓﻤﻦ اﻧﺘﺸﺮﺕ ﺁﻟﺘﻪ ﻓﻄﻠﺐ اﻣﺮﺃﺗﻪ ﻭﺃﻭﻟﺠﻬﺎ ﺑﻴﻦ ﻓﺨﺬﻱ اﺑﻨﺘﻬﺎ ﻻ ﺗﺤﺮﻡ ﻋﻠﻴﻪ ﺃﻣﻬﺎ ﻣﺎ ﻟﻢ ﺗﺰﺩﺩ اﻧﺘﺸﺎﺭا ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﺘﺒﻴﻴﻦ ﻫﺬا اﻟﺤﺪ ﺇﺫا ﻛﺎﻥ ﺷﺎﺑﺎ ﻗﺎﺩﺭا ﻋﻠﻰ اﻟﺠﻤﺎﻉ ﻓﺈﻥ ﻛﺎﻥ ﺷﻴﺨﺎ ﺃﻭ ﻋﻨﻴﻨﺎ ﻓﺤﺪ اﻟﺸﻬﻮﺓ ﺃﻥ ﻳﺘﺤﺮﻙ ﻗﻠﺒﻪ ﺑﺎﻻﺷﺘﻬﺎء ﺇﻥ ﻟﻢ ﻳﻜﻦ ﻣﺘﺤﺮﻛﺎ ﻗﺒﻞ ﺫﻟﻚ ﻭﻳﺰﺩاﺩ اﻻﺷﺘﻬﺎء ﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﻣﺘﺤﺮﻛﺎ ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﻤﺤﻴﻂ ﻭﻟﻮ ﻣﺲ ﻓﺄﻧﺰﻝ ﻟﻢ ﺗﺜﺒﺖ ﺑﻪ ﺣﺮﻣﺔ اﻟﻤﺼﺎﻫﺮﺓ ﻓﻲ اﻟﺼﺤﻴﺢ ﻷﻧﻪ ﺗﺒﻴﻦ ﺑﺎﻹﻧﺰاﻝ ﺃﻧﻪ ﻏﻴﺮ ﺩاﻉ ﺇﻟﻰ اﻟﻮﻁء ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﻜﺎﻓﻲ والله تعالي أعلم بالصواب
کتبہ ندیم ابن علیم المصبور العینی ممبئی مہاراشٹر
0 Comments:
براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ