Headlines
Loading...
غالب گمان نہ ہو تو چور سے کتنا سامان لیا جائے ؟

غالب گمان نہ ہو تو چور سے کتنا سامان لیا جائے ؟


(مسئلہ) زید کا سامان عمرو نے چرا لیا اور سی سی ٹی وی میں وہ قید ہوگیا زید نے اس کے خلاف پولیس میں شکایت درج کروائی کہ میرا اتنا سامان چوری ہوا ہے (زید کا یہ غالب گمان ہے کہ اتنا سامان چوری ہوا ہے لیکن یقین نہیں) اب عمرو نے اس کے بدلے دوسری کمپنی کا اتنا ہی سامان بازار سے لے کر عدالت میں جمع کروایا کہ یہی چوری کیا ہوا سامان ہے، اور عدالت نے وہ سامان زید کو دے دیا۔ زید کے لیے یہ سامان لینا جائز ہوگا؟ کیا یہ سامان لینے میں سود (ربا) کا معاملہ تو نہیں ہوگا؟ چوری شدہ سامان کی مقدار یقین کے بجائے گمان پر مبنی ہے اور زید کو سامان واپس مل رہا ہے، قیمت نہیں اور جو سامان واپس مل رہا ہے، وہ کم معیار کا ہے لیکن اسی قسم کا ہے

(جواب) کیمرے سے اگر چوری شدہ سامان کی مقدار معلوم نہ ہوسکے تو قسم کے ساتھ غاصب (عمرو) کا قول مقدار کے بارے میں معتبر ہوگا۔ وہ یا تو مقدار کے بارے میں زید کے قول کو قبول کرلے یا قسم کھا کر کہے کہ میں نے اتنا چوری کیا تھا۔ اس مال کے بدلے میں دوسری کمپنی کا ویسا ہی مال تاوان میں لے سکتے ہیں۔ اگر مالک کے مطابق تاوان میں دیا جانے والا مال کم معیار کا ہے تو وہ یا تو کم معیار والے پر راضی ہوجائے یا گواہ پیش کرے کہ اس کا مال اعلی معیار کا تھا ورنہ عمرو کی بات بقسم معتبر ہوگی اور ثابت ہونے پر زید کو تاوان کے سامان کے علاوہ اتنی قیمت دی جائے گی جس سے تاوان میں دیے گئے مال کی مجموعی قیمت مغضوب کی قیمت کے مطابق ہوجائے اس سے زیادہ لے گا تو اضافی مال سود کہلائے گا اور زید سخت گنہگار ہوگا والله تعالی اعلم

كتبه ندیم ابن علیم المصبور العینی 

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ