
حافظ قرآن بقدر ضرورت علم نہ سیکھیں تو کیا حکم ہے
(سوال) اگر بقدرِ ضرورت علم دین حاصل کرنا فرض ہے اور کوئی حافظِ قرآن بلاعذر اس فرض کو ترک کر رہا ہے، تو کیا وہ فاسق نہیں ہوگا؟ جبکہ فقہاء کے نزدیک فرض کا تارک گناہگار ہوتا ہے، پھر بھی اسے فاسق کیوں نہیں کہا جائے گا؟ براہِ کرم دلائل کے ساتھ وضاحت فرمائیں
(جواب) تمام تر فرائض وواجبات کا علم رکھنا ہر کسی پر فرض نہیں ہے بلکہ بقدر ضرورت علم رکھنا۔ کس شخص کے نزدیک کیا ضرورت ہے اور کیا ضرورت سے خارج ہے اور کیا واقعی اسے اس ضروری فرض کا علم نہیں ہے اور وہ قصدا نہیں سیکھتا، یہ سب باتیں از خود یقین سے جانی نہیں جاتیں اس لیے اس پر فسق کا حکم نہیں لگایا جاسکتا ہے بخلاف اس شخص کے جس پر ارتکاب کبائر کا اثر ظاہر ہو یا وہ جو گناہ میں مشہور ہو یا اس کے فسق پر گواہان شرعی موجود ہوں، مثال کے طور پر وہ شخص جس نے زنا کیا اور اس پر دو مرد شاہد ہوں یا وہ جو غیبت کرنے میں مشہور ہو یا وہ جو ایسے کپڑے پہننے کا عادی ہو جو ستر نہ چھپاتے ہوں۔ اگر ایسا ہو کہ ہر اس شخص کو فاسق قرار دیا جائے جو کسی فرض یا واجب نآشنا ہو تو اکثر دنیا فاسق کہلائے گی کہ اکثر کے علم میں کچھ نہ کچھ فرض علوم نہیں ہوتے حتی کہ وہ شخص جس کی کوئی نماز قضا نہیں ہوئی ہو ممکن ہے کہ وہ چوتھائی سر کے مسح کی فرض سے ناواقف ہو اگرچہ وہ اسے بجا لاتا ہو والله تعالى أعلم
كتبه: ندیم ابن علیم المصبور العینی
0 Comments:
براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ