کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسںٔلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک دکان وہابی کی ہے اور ایک کافر کی تو سامان خریدنے میں ترجیح کسے دیں وہابی کی دکان یا کافر کی حوالے کے ساتھ جواب عنایت فرماںٔیں عین کرم ہوگا
ساںٔل صغیر احمد ساکن کالینجر ضلع باندا یو ،پی
الجوابـــــ بعون الملک الوھاب
اس مسئلہ میں اصول یہ ہے کہ خرید و فروخت کا تعلق خود سامان اور معاملہ کی حلت و حرمت سے ہے، نہ کہ محض بیچنے والے کے عقیدہ سے، بشرطیکہ معاملہ ناجائز امور پر مشتمل نہ ہو
(1) کافر سے خرید و فروخت کا حکم
کافر (ذمی یا غیر محارب) سے خرید و فروخت جائز ہے، اس پر فقہاء کا اتفاق ہےنبی کریم ﷺ نے خود یہودی سے خرید و فروخت فرمائی، حتیٰ کہ زرہ گروی رکھی
حوالہ توفی رسولُ الله ﷺ ودرعُه مرهونة عند يهودي (صحیح البخاری، کتاب البیوع)
(2) گمراہ فرقہ (وہابی/بدعقیدہ) سے معاملہ وہ شخص جو بدعقیدہ ہو مگر کافر نہ ہو (یعنی مسلمان ہی سمجھا جاتا ہو)، اس سے خرید و فروخت اصلاً جائز ہے، لیکن اگر اس سے خریدنے میں اس کے باطل مذہب کی تقویت ہویا اس کی بدعت کی ترویج ہوتو پھر اس سے اجتناب بہتر اور بعض صورتوں میں لازم ہوگا
حوالہ: الکراهة إن كان في المعاملة إعانة على البدعة(رد المحتار، کتاب الحظر والاباحة)
(3) ترجیح کا اصول فقہاء کے کلام سے خلاصہ یہ نکلتا ہےاگر وہابی سے خریدنے میں اس کے باطل عقائد کی تقویت ہواور کافر سے خریدنے میں ایسا اندیشہ نہ ہوتو کافر کی دکان سے خریدنا ترجیح رکھتا ہےکیونکہ: بدعتی مسلمان اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر دین میں بگاڑ پھیلاتا ہےجبکہ کافر اپنے دین میں واضح ہے اور دینِ اسلام میں تحریف نہیں کرتا
فقہی قاعدہ دفعُ الفساد مقدَّمٌ على جلبِ المصلحة ترجمہ: فساد کو دفع کرنا مصلحت کے حصول پر مقدم ہے)
(4) خلاصۂ جواب دونوں سے خرید و فروخت فی نفسہٖ جائز ہےترجیح اس کو دی جائے گی جس سے دین کو کم نقصان پہنچےاگر وہابی سے خریدنے میں اس کے عقائد کی ترویج کا اندیشہ ہو تو کافر کی دکان سے خریدنا بہتر ہے
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ العبد خاکسار ناچیز محمد شفیق رضا رضوی خطیب و امام سنّی مسجد حضرت منصور شاہ رحمت اللہ علیہ بس اسٹاپ کشنپور فتحپور الھند
الجواب صحیح حضرت علامہ و مولانا مفتی محمد صباح الدین مصباحی خادم التدریس والافتاء دارالعلوم ربانیہ باندہ یوپی
