Headlines
Loading...
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 
کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارےمیں کہ اگر شوہر نے بیوی کو ڈرانے کے لئے لفظ تلاک کہا تو کیا طلاق ہو جائے گی اس بات کا خیال رہیں کی اس نے طلاق کا لفظ استمال نہیں کیا بلکہ لفظ تلاک کہا ہے 
 برائے مہربانی جو
اب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی
سائل محمد یوسف خان


*وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ*
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب 
صورت مسؤلہ میں طلاق رجعی واقع ہوگئی اگرچہ اس نےلفظ طلاق کوطلاک کہا

*🖊جیساکہ سرکارصدرالشریعہ رحمتہ علیہ تحریر فرماتےہیں*

اگرکوئی شخص طلاق کےالفاظ اس طرح کہے
  طلاغ تلاغ طلاک تلاک تلاکھ، تلّاکھ،تلاخ، تلاح، تلاق، طِلاق۔ بلکہ توتلے کی زبان سے، تلات۔ یہ سب صریح کے الفاظ ہیں ، ان سب سے ایک طلاق رجعی ہوگی اگرچہ نیت نہ ہو یا نیت کچھ اور ہو۔ ط ل ا ق، طا لام الف قاف کہا اور نیت طلاق ہو تو ایک رجعی ہوگی۔

اورآگےفرماتےہیں
لفظ طلاق غلط طور پر ادا کرنے میں عالم و جاہل برابر ہیں ۔ بہر حال طلاق ہو جائے گی اگرچہ وہ کہے میں نے دھمکانے کے لیے غلط طور پر ادا کیا طلاق مقصود نہ تھی ورنہ صحیح طور پر بولتا۔ ہاں اگر لوگوں سے پہلے کہہ دیا تھا کہ میں دھمکانے کے لیے غلط لفظ بولوں گا طلاق مقصود نہ ہوگی تو اب اس کا کہا مان لیا جائیگا ورنہ طلاق واقع ہوجائے گی 

بہارشریعت جلددوم حصہ ہشتم صفحہ 10۔۔صریح کابیان

اب اس کوچاہئے کہ رجعت کرلے رجعت اس طرح کہ اپنی بیوی کی پیشانی کوچوم لےیاپھراس کوگلےسےلگالےیاپھرہاتھ چوم لےیاپھرپاس میں لٹالےرجعت ہوجائےگی 

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب 

محمدافسررضاحشمتی سعدی عفی عنہ

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ