Headlines
Loading...
میت کوکس طرح غسل دیا جائے اور کس طرح دفنایا جائے

میت کوکس طرح غسل دیا جائے اور کس طرح دفنایا جائے

 السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
*_📖ســــوال:👇_*
کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسلئہ کے بارے میں کی مردوں کو غسل کس طرح سے دی جاتی ہے اور کیسے قبر میں کیسے اتارا جاتا ہے جواب عنایت فرمائیں حدیث کی روشنی میں_

سائل👈🏻 محمد غلام حسین گیاوی بہار شریف

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
*📙الجـــــــــــــــــوابــــــــــــــــــــــــــــ*
میت کو غسل دینا فرض کفایہ ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے : حضرت ام عطیہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحب زادی (سیدہ زینب رضی اﷲ عنہا) کو غسل دے رہے تھے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسے پانی اور بیري کے پتوں کے ساتھ طاق غسل دو یعنی تین یا پانچ بار، اور آخر میں کافور ملا لیں۔ غسل کا سلسلہ اپنی جانب سے اور وضو کے اعضا سے شروع کریں۔‘‘
_(📖بخاری، الصحيح، کتاب الجنائز، باب ما يستحب ان يغسل وتراً، 1 : 423، رقم : 1196)_
میت کو غسل دینے کا طریقہ یہ ہے کہ جس تخت پر میت کو نہلانے کا ارادہ ہو اس کو تین، پانچ یا سات مرتبہ دھونی دیں۔ پھر اس پر میت کو لٹا کر تمام کپڑے اتار دیئے جائیں سوائے لباس ستر کے، پھر نہلانے والا اپنے ہاتھ پہ کپڑا لپیٹ کر پہلے استنجا کرائے پھر نماز جیسا وضو کرائے لیکن میت کے وضو میں پہلے گٹوں تک ہاتھ دھونا اور کلی کرنا اورناک میں پانی چڑھانا نہیں ہے کیونکہ ہاتھ دھونے سے وضو کی ابتدا زندوں کے لیے ہے۔ چونکہ میت کو_ _دوسرا شخص غسل کراتا ہے، اس لیے کوئی کپڑا بھگو کر دانتوں اور مسوڑھوں اور ناک کو صاف کیا جائے پھر سر اور داڑھی کے بال ہو تو پاک صابن سے دھوئیں ورنہ خالی پانی بھی کافی ہے۔ پھر بائیں کروٹ پر لٹا کر دائیں طرف سر سے پاؤں تک بیری کے پتوں کا جوش دیا ہوا پانی بہائیں کہ تخت تک پانی پہنچ جائے۔ پھر دائیں کروٹ لٹا کر بائیں طرف اسی طرح پانی بہائیں۔ اگر بیری کے پتوں کا اُبلا ہوا پانی نہ ہو تو سادہ نیم گرم پانی کافی ہے۔ پھر ٹیک لگا کر بٹھائیں اور نرمی سے پیٹ پر ہاتھ پھیریں اگر کچھ خارج ہو تو دھو ڈالیں۔ پھر پورے جسم پر پانی بہائے۔ اس طرح کرنے سے فرض کفایہ ادا ہوگیا۔ اس کے بعد اگر دو غسل اور دیئے تو سنت ادا ہو جائے گی ان کا طریقہ یہ ہے کہ میت کو دوسری بار بائیں کروٹ لٹایا جائے اور پھر دائیں پہلو پر تین بار اسی طرح پانی ڈالا جائےجیسا کہ پہلے بتایا گیا۔ پھر نہلانے والے کو چاہیے کہ میت کو بٹھائے اور اس کو اپنے سہارے پر رکھ کر آہستہ آہستہ اس کے پیٹ پر ہاتھ پھیرے۔ اگر کچھ خارج ہو تو اس کو دھو ڈالے یہ دوسرا غسل ہوگیا۔ اسی طرح میت کو تیسری بار غسل دیا جائے تو سنت ادا ہو جائے گی۔ابتدائی دو غسل نیم گرم پانی بیری کے پتے/ صابن کے ساتھ دیئے جائیں۔ تیسرے غسل میں پانی میں کافور استعمال کی جائے۔ اس کے بعد میت کے جسم کو پونچھ کر خشک کر لیا جائے اور اس پر خوشبو مل دی جائے۔میت کو قبر میں اتارنے کے طریقے:مذکورہ بالا دونوں قسم کی قبروں میں میت کو اتارنے کے لئے تین طریقے احادیث مبارکہ سے ملتے ہیں:پہلا طریقہ چارپائی قبر کے برابر رکھ کر میت کو قبلہ کی جانب سے قبر میں داخل کرنا ہے جیسا کہ درج ذیل روایات سے ثابت ہے:
_عَنِ ابْنِ عَبَّاس رضی الله عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم دَخَلَ قَبْرًا لَيْلًا فَأُسْرِجَ لَهُ سِرَاجٌ فَأَخَذَهُ مِنْ قِبَلِ الْقِبْلَةِ وَقَالَ رَحِمَکَ اﷲُ إِنْ کُنْتَ لَأَوَّاهًا تَلَّاءً لِلْقُرْآنِ وَکَبَّرَ عَلَيْهِ أَرْبَعًا._
_’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کے وقت ایک قبر میں داخل ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے چراغ جلایا گیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میت کو قبلہ کی طرف سے پکڑ کر فرمایا: اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم فرمائے تو بہت رونے والا اور کثرت سے تلاوت قرآن کرنے والا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس (کے جنازہ) پر چار تکبیریں پڑھیں۔‘‘
فِي الْبَابِ عَنْ جَابِرٍ وَيَزِيدَ بْنِ ثَابِتٍ رضی الله عنهما وَهُوَ أَخُو زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَکْبَرُ مِنْهُ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَی هَذَا وَقَالُوا يُدْخَلُ الْمَيِّتُ الْقَبْرَ مِنْ قِبَلِ الْقِبْلَةِ و قَالَ بَعْضُهُمْ يُسَلُّ سَلًّا وَرَخَّصَ أَکْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الدَّفْنِ بِاللَّيْلِ.
اس باب میں حضرت جابر اور یزید بن ثابت (حضرت زید بن ثابت کے بڑے بھائی) رضی اللہ عنہما سے بھی روایات مذکور ہیں۔ امام ترمذی رحمہ اﷲفرماتے ہیں حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما حسن ہے، بعض علماء اسی طرف گئے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ میت کو قبلہ کی طرف سے داخل کیا جائے۔ بعض حضرات فرماتے ہیں سر کی طرف سے کھینچا جائے، اکثر علماء نے رات کو دفنانے کی اجازت دی ہے۔
(📓ترمذي، السنن، 3: 372، رقم: 1057)
حضرت علامہ علی بن سلطان محمد القاری حنفی رحمہ اﷲ مذکورہ بالا حدیث مبارکہ کی شرح میں لکھتے ہیں:👇
_📖احتج أبو حنيفة رضي الله عنه بهذا الحديث علی أن الميت يوضع في عرض القبر في جانب القبلة بحيث يکون مؤخر الجنازة إلی مؤخر القبر ورأسه إلی رأسه ثم يدخل الميت القبر وقال الشافعي رضي الله عنه والأکثرون يسل من قبل الرأس بأن يوضع رأس الجنازة علی مؤخر القبر ثم يدخل الميت القبر للاجماع بعد ذلک عليه قلت لعله أراد بالإجماع اتفاق حفاري بلده أو أهل مذهبه._
امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے اس پر حجت پکڑی ہے کہ میت کو قبر کے عرض میں قبلہ کی جانب رکھا جائے، اس طرح کہ چارپائی کا پچھلا حصہ قبر کے پچھلے حصہ کی طرف ہو پھر میت کو قبر میں داخل کیا جائے۔امام شافعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: سر کی جانب سے رکھتے ہیںچونکہ میت کا سر قبر کے آخر میں ہے، پھر میت کو قبر میں داخل کیا جاتا ہے اس پر اجماع ہے۔ میں کہتا ہوں شاید ان کے اجماع سے مراد کسی ایک شہر کے علماء یا کسی ایک مذہب کے علماء ہیں۔
_📖ملا علي القاري، مرقاة المفاتيح، 4: 163-164، بيروت، لبنان: دار الکتب العلمية_
_سنن ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے:👇_
_عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أُخِذَ مِنْ قِبَلِ الْقِبْلَةِ وَاسْتُقْبِلَ اسْتِقْبَالًا۔_
’’حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم مبارک کو قبلہ کی جانب سے لیا گیا اور (قبر میں) چہرہ مبارک قبلہ کی طرف کیا گیا۔‘‘
(📙ابن ماجه، السنن، 1: 495، رقم: 1552)
دوسرا طریقہ یہ ملتا ہے کہ میت کی چارپائی کو قبر کی پائنتی کی جانب اس طرح رکھا جائے کہ میت کا سر قبر کے آخری حصہ پر ہو اور پھر چارپائی سے اٹھا کر میت کے سر کو قبر کی طرف آگے بڑھایا جائے جب میت قبر کے اوپر برابر آ جائے تو پھر نیچے اتار دیا جائے۔ احادیث مبارکہ میں ہے:
_عَنِ بْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ سُلَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنْ قِبَلِ رَأسِهِ._
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سر کی طرف سے قبر انور میں اتارا گیا۔‘‘
_📙(الشافعي، المسند، 1: 360، دار الکتب العلمية بيروت)_
_(📓بيهقي، السنن الکبری، 4: 54، رقم: 6846، مکة المکرمة: مکتبة دار الباز)_
اس حدیث مبارکہ کی شرح میں ملا علی قاری رحمہ اﷲ نے ابن ہمام رحمہ اﷲ کا موقف نقل کیا ہے:
_📖قال ابن الهمام هو بأن يوضع السرير في مؤخر القبر حتی يکون رأس الميت بإزاء موضع قدميه من القبر ثم يدخل رأس الميت القبر ويسل کذلک أو تکون رجلاه موضع رأسه ثم يدخل رجلاه ويسل کذلک._
ابن ہمام کہتے ہیں چار پائی قبر کے انتہائی آخری حصے کے پاس رکھی جاتی ہے یہاں تک کہ میت کا سر قبر سے قدموں والی جگہ کے برابر ہوتا ہے پھر میت کا سر قبر میں داخل کیا جاتا ہے یا اس کے پاؤں سر کی جگہ ہوتے ہیں پھر اُس کے پاؤں کو داخل کیا جاتا ہے۔
(📙ملا علي القاري، مرقاة المفاتيح، 4: 163)
ایک اور روایت میں ہے👇:
_عَنْ أَبِي رَافِعٍ رضی الله عنه قَالَ: سَلَّ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم سَعْدًا وَرَشَّ عَلَی قَبْرِهِ مَاءً._
’’حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو سر کی جانب سے قبر میں اتارا اور ان کی قبر پر پانی چھڑکا۔‘‘
(📙ابن ماجه، السنن، 1: 495، رقم: 1551)
تیسرے طریقے میں میت کی چارپائی کو قبر کے سرانے اس طرح رکھا جائے کہ میت کےپاؤں قبر کی جانب ہوں اور میت کو چارپائی سے اٹھا کر پاؤں اس طرح آگے بڑھائے جائیں کہ جب میت قبر کے برابر ہو جائے تو پھر نیچے اتار دیا جاتا ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے:
_📖حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ رضی الله عنه قَالَ: أَوْصَی الْحَارِثُ رضی الله عنه أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهِ عَبْدُ اﷲِ بْنُ يَزِیدَ رضی الله عنه فَصَلَّی عَلَيْهِ ثُمَّ أَدْخَلَهُ الْقَبْرَ مِنْ قِبَلِ رِجْلَیْ الْقَبْرِ وَقَالَ هَذَا مِنْ السُّنَّةِ._
حضرت شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابن اسحق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضرت حارث رضی اللہ عنہ نے وصیت کی کہ ان کے جنازے کی نماز عبد اللہ بن یزید رضی اللہ عنہ پڑھائیں۔ پس انہوں نے نماز 
جنازہ پڑھائی۔ پھر پیروں کی جانب سے ان کو قبر میں داخل کیا اور فرمایا کہ سنت یہی ہے۔‘‘
(📓أبي داؤد، السنن، 3: 213، رقم: 3211)
مذکورہ بالا تصریحات کی رو سے دونوں طرح کی قبروں میں میت کو اتارنے کے لئے تین اطراف سے لیا جا سکتا ہے۔شرعی طور پر کسی ایک طرف سے اتارنے کی پابندی نہیں ہے کیونکہ یہ ضرورت کے پیش نظر ہے جس سمت سے مناسب ہو میت کو قبر میں اتارنا جائز ہے لیکن تینوں اطراف سے قبر میں اتارنے کے لئے ایک شخص قبر میں داخل ہو جاتا ہے اور پھر میت کو پہلے قبر کے اوپر متوازی کر کے نیچے رکھ دیا جاتا ہے اور میت کے چہرے کو قبلہ رخ کر دیا جاتا ہے نہ کہ اس کے پاؤں یا سر کو پہلے قبر میں داخل کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اس صورت میں سر یا پاؤں پہلے قبر میں داخل کرنے کے سوال کا عملاً کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ لیکن ہماری تحقیق کے مطابق بعض علاقوں میں سرنگ کی طرز پر قبریں بھی بنائی جاتی ہیں جن میں میت کو اوپر سے اتارا نہیں جاتا بلکہ قبر کی ایک جانب سے لمبائی کے رخ داخل کیا جاتا ہے۔ جبکہ احادیث مبارکہ سے ایسی کوئی مثال نہیں ملتی مگر مذکورہ بالا دو طرح کی قبروں کے علاوہ کسی اور طرز پر قبر بنانے سے منع بھی نہیں کیا گیا کیونکہ علاقہ اور زمین کی سختی و نرمی کے مطابق قبر کھودی جاتی ہے۔ لہٰذا سرنگ کی طرز پر بنائی گئی قبر میں پہلے پاؤں یا سر داخل کرنے کا سوال پیدا ہو سکتا ہے۔ اس کا جواب یہی ہے کہ جس ضرورت کے تحت اس طرز پر قبر بنائی گئی اُسی کے پیش نظر جس جانب سے میت کو قبر میں داخل کرنے کا راستہ مناسب ہو اُسی کے مطابق میت کا سر یا پاؤں قبر میں پہلے داخل کر سکتے ہیں کوئی پابندی نہیں ہے لیکن مذکورہ بالا احادیث مبارکہ کی رو سے افضل لحد ہے، اگر لحد ممکن نہ ہو تو شق بنائی جائے

و اللــہ تعــالی اعلــم بالصـــــواب

کتــــبہ حــضـــرتـــ عــــلامہ ومــــولانا مــحــــمدانـــیــــس الرحــمٰـن صاحب قبلہ
 ۲۱ /اگست ۲۰۱۹ء بروز بدھ
اســـــــلامی مـــعــلــومات گــــروپ

1 تبصرہ

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ