Headlines
Loading...
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎


      سوال برائے علماء کرام

 کیافرماتےہیں علماۓکرام اس مسٸلہ میں کہ خواتین کامرد استاد سے پڑھنا کیسا ایسی طرح مرد کا کسی عورت سےپڑھنا؟ اس مسٸلہ میں جواز یاعدم جواز کسی صورت میں بھی علوم عصری وعلوم دینی میں کوٸ تخصیص ہوگی؟ اگر جاٸز ہے مطلق ہے یا مقید ؟ بمع دلاٸل تفصیلا رہنماٸ فرمادیں 
۔
           ساٸل سید زین العابدین کاظمی 

           وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎ 

            الجواب ھوالھادی الی الصواب
 : مخلوط تعلیم کاجوطریقہ اسکولوں اور کالجوں میں انگریزوں کی اندھی تقلید میں راٸج ہے حرام وگناہ ہے کیونکہ جوان لڑکے جوان لڑکیاں ایک کلاس روم میں بیٹھتے ہیں بے حجاب ایک دوسرے کودیکھتے اور بات چیت بھی کرتے ہیں یوہیں اساتذہ بلاحجاب ایک دوسرے کودیکھتے رہتے ہیں یہ سب ناجاٸز وگناہ ہے کہ اجنبی مرد وعورت کاایک دوسرے کو بے حجاب قصداًدیکھنا شرعاً ممنوع ہے اس کی وجہ سے فتنے بھی پیدا ہوتے ہیں کبھی کبھی عشق بازی کے واقعات بھی ہوجاتے ہیں ۔ اللہ تعالی فرماتاہے ولایبدین زینتھن الا لبعولتھن الخ اور اپناسنگار ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں پر الخ سورة النور ۔فتاویٰ مرکز افتا ٕ میں مسندامام احمدبن حنبل کے حوالے سے ہے لاتتبع النظرة النظرة فانھا لک الاولیٰ ولیست لک الاخرة یعنی عورت پرایک نگاہ پڑجانے کےبعد دوسری نگاہ نہ ڈالو کہ اچانک پڑجانے والی پہلی نگاہ تمہارے لیے معاف ہے دوبارہ دیکھنا جاٸز نہیں( ج ٢، ص 432 ) ہاں اگر کوٸ استاذ لڑکیوں پر نظر نہ ڈالے ان سے اپنی نظر جھکاۓ رکھے نیز انہیں ہدایت دے کہ وہ نقاب میں رہیں اور وہ بھی اپنی نگاہیں جھکاۓ رکھیں تو استاذ پر کوٸ الزام نہ ہوگا۔ 
     
                 واللہ تعالی اعلم 
          کتبہ حضرت علامہ مولانا محمد عبدالستاررضوی
           ١٢ جمادی الاول ١٤٤١ھ
         اســـــلامی مـــعــلـومات گــروپ 

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ