Headlines
Loading...
نماز اشراق جماعت کے ساتھ پڑھنا کیســـاھے

نماز اشراق جماعت کے ساتھ پڑھنا کیســـاھے


                السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید نے نماز اشراق کو باجماعت کئ جگہ پڑھایا تو زید نماز اشراق کا جماعت کے ساتھ کئ جگہ پڑھانا کیسا ہے کیا زید کے پیچھے پڑھنے تمام جگہوں کے مقتدیوں کی نماز ہوجائے گی ؟

 السائل محمد دلکش رضا قادری خطیب وامام رضا جامع مسجد ماٹی گاڑا بازار سلی گوڑی ویسٹ بنگال 
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
                 وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ 

                 الجواب بعون الملک الوھاب 

نماز اشراق نوافل میں سےہے اگر کئی جگہ کثیر تعداد کے ساتھ پڑھایا تو بہتر نہیں کیا اور اگر تین مقتدی چوتھا امام تھا تو کوئی حرج نہیں - قدیم فتاویٰ رضویہ میں ہے تراویح وکسوف واستسقاء کے سوا جماعت نوافل میں ہمارے ائمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا مذہب معلوم مشہور اور ‌عامئہ کتب میں مذکور ومسطور ہے کہ بلاتداعی مضائقہ نہیں اور تداعی کے ساتھ مکروہ - تداعی ایک دوسرے کو بلانا ‌جمع کرنا اور اسے کثرت جماعت لازم ‌عادی‌ہے اور اس کی تحدید امام نسفی وغیرہ نے کافی میں یوں فرمائ کہ امام کے ساتھ ایک دوشخص تک بالاتفاق بلا کراہت جائز اور تین میں اختلاف اور چار مقتدی ہوں تو بالاتفاق مکروہ - امام شمس الائمہ سے منقول ہے کافی کا نص عبارت یہ ہے (لایصلے تطوع بجماعت الا قیام رمضان ) وعن شمس الائمہ ان التطوع بالجماعت انما یکروہ اذا کان علی سبیل التداعی اما لو اقتدا واحد بواحد او اثنان بواحد لایکروہ واذا اقتدی ثلثت بواحد اختلف وان اقتدی اربعہ بواحد کرہ اتفاق اور اصح یہ ہے کہ تین مقتدیوں میں بھی کراہت نہیں طحطاوی علی مراتی الفلاح میں ہے قولہ اختلف فیہ والاصح عدم الکراھت مگر انہیں امام ‌شمس الائمہ سے خلاصہ وغیرہ میں یوں منقول کہ تین مقتدیوں تک بالاتفاق کراہت نہیں چار میں اختلاف ہے - بالجملہ دو مقتدیوں میں ‌بالاجماع جائز اور پانچ میں بالاتفاق مکروہ اور تین اور چار میں اختلاف نقل ومشائخ اور اصح یہ ہے کہ تین میں کراہت نہیں چار میں ہے تو مذہب مختار یہ نکلا کہ امام کے سوا چار یا زائد ہوں تو کراہت ہے ورنہ نہیں درمختار میں ہے یکروہ ذلک لو علی سبیل التداعی بان یقتدی اربعہ واحد پھر اظہر یہ ہے کہ یہ کراہت صرف ‌تنزیہی ہے یعنی خلاف اولی نہ تحریمی کہ گناہ وممنوع ہو ( ج : 3 ، ص : 464)فتاویٰ مرکز تربیت افتاء اول صفحہ 270 میں ہے خلاف اولی بلاشبہ جائز میں شمار ہوتا ہے(ج : 3، ص : 464) 

                        واللہ تعالیٰ اعلم 

کتبہ عبد السّتار رضوی خادم ارشدالعلوم عالم بازار کلکتہ- ٢ شوال المکرم ١٤٤١ھ

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ