Headlines
Loading...
دن میں سری قرآت اور رات کو جہری قرآت کیوں؟؟؟

دن میں سری قرآت اور رات کو جہری قرآت کیوں؟؟؟


               السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

علمائے کرام کی بارگاہ میں سوال عرض یہ ہے کہ دن کو جو نمازیں پڑھتے اس میں آہستہ قرآت کیوں پڑھی جاتی ہیں اس کی کوئی وجہ اور رات کو بلند آواز میں برائے مہربانی جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی 

سائل حافظ حسن رضا رضوی خطیب و امام سنّی مسجد جعفرگنج
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
               وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

                 الجوابـــــ بعون الملکـــــ الوھاب 

شروع زمانۂ اسلام میں کفار کا غلبہ تھا وہ قرآن شریف سنکر اللہ تعالیٰ, قرآن مقدس, جبریل علیہ السلام اور حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتے تھے چونکہ ظہر و عصر میں وہ آوارہ گھومتے تھے اس لئے ان دو نمازوں میں آہستہ قرأت کا حکم ہوا اسکے برخلاف مغرب میں کھانے میں مشغول ہوتے عشاء میں سو جاتے اور فجر میں جاگتے نہ تھے اس ان نمازوں میں جہری قرأت کا حکم ہوا -اللہ تعالیٰ نے فرمایا ولا تجھر بصلوٰتک ولا تخافت بھا وابتغ بین ذالک سبیلا " یعنی اور اپنی نماز نہ بہت آواز سے پڑھو اور نہ بالکل آہستہ اور نہ ان دونوں کے درمیان راستہ چاہو " اھ (سورۂ اسراء آیت:110) اب اگرچہ وہ حالت نہ رہی مگر حکم وہی رہا کہ مسلمان اس مغلوبیت کو یاد کرکے اب غلبۂ اسلام پر خدا کا شکر کریں الدر المنثور فی التفسیر الماثور میں ہے کہ عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فی قولہ "ولا تجھر بصلوٰتک " الخ قال نزلت و رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بمکۃ متوار فکان اذا صلی باصحابہ رفع صوتہ بالقرآن فاذا سمع ذالک المشرکون کون سموالقرآن و من انزلہ و من جاء بہ فقال اللہ لنبیہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم (ولا تجھر بصلوٰتک) أی لقرأتک فیسمع المشرکون فیسبوا القرآن (ولا تخافت بھا) عن اصحابک فلا تسمعھم القرآن حتی یأخذوہ عنک ( وابتغ بین ذالک سبیلا) یقول بین الجھر والمخافۃ یعنی در منثور تفسیر ماثور میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے "ولا تجھر بصلوٰتک" کے تحت روایت کیا فرماتے ہیں یہ آیت کریمہ اس وقت نازل ہوئی جب رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں چھپ کر نماز پڑھا کرتے تھے جب آپ اپنے صحابہ کرام (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) کو نماز پڑھاتے تو قرآن کریم کو بلند آواز سے پڑھتے جب مشرکین آپکی آواز سنتے تو قرآن کو نازل کرنے والے اور قرآن کو لانے والے کی گستاخی کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے فرنایا "ولا تجھر بصلوٰتک" یعنی آواز سے قرأت نہ کیا کرو تاکہ مشرکین قرآن کو سنکر اسکی توہین اور گستاخی نہ کریں "ولا تخافت بھا" اور آواز کو اتنا پست بھی نہ کرو کہ صحابہ کرام (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) کو بھی نہ سنا سکیں "وابتغ بین ذالک سبیلا" اور تلاش کرو ان دونوں کے درمیان کا راستہ " اھ( ج:4/ص:373)اور تفسیر کبیر میں ہے کہ معناہ بان تجھر بصلاۃ اللیل و تخافت بصلاۃ النھار " اھ یعنی اسکے معنی یہ ہیں کہ آپ رات کی نماز میں بلند آواز سے قرأت کریں اور دن کی نماز میں آہستہ "اھ (ج:7/ص:419)بحوالہ فتاوی مرکز تربیت افتاء ج:1/ص:124/ کتاب الصلاۃ / فقیہ ملت اکیڈمی اوجھا گنج ضلع بستی 

                واللہ تعالیٰ اعلم بـاالـــــــصـــــــــواب 

کتبہ اسرار احمد نوری بریلوی خادم التدریس والافتاء مدرسہ عربیہ اہل سنت فیض العلوم کالا ڈھونگی ضلع نینی تال اتراکھنڈ 26---مئی 2020---بروز منگل

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ