داڑھی کی حد کہاں سے کہاں تک ہے؟؟
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
داڑھی کی حد کہاں سے کہاں تک ہے؟؟ بالخصوص ہونٹ کے نیچے کے بال داڑھی کے حکم میں ہے کہ نہیں؟؟
ساٸل؛۔ محمد غفران قادری۔ دسولی فتح پور الھند
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجوابـــــ بعون الملکـــــ الوھاب
اس کے تعلق سے سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ داڑھی قلموں کے نیچے سے کنپٹیوں، جبڑوں، ٹھوڑی، پر جمتے ہے، اور عرضاً {چوڑائی میں} اس کا بالائی حصہ کانوں اور گالوں کے بیچ میں ہوتا ہے, جس طرح بعض لوگوں کے کانوں پر رونگٹے ہوتے ہیں، وہ داڑھی سے خارج ہیں، یوں ہی گالوں پر جو خفیف بال کسی کے کم کسی کے آنکھوں تک نکلتے ہیں، وہ بھی داڑھی میں داخل نہیں یہ بال قدرتی طور پر موئے ریش سے جدا ممتاز ہوتے ہیں, اس کا مسلسل راستہ جو قلموں کے نیچے سے ایک مخروطی شکل پر جانب ذقن جاتا ہے, یہ بال اس راہ سے جدا ہوتے ہیں نہ ان میں موئے محاسن کے مثل قوت نامیہ، ان کے صاف کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ بسا اوقات ان کی پرورش باعثِ تشویہِ خلق وتقبیحِ صورت ہوتی ہے جو شرعاً ہرگز پسندیدہ نہیں (العطا یا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ 22/ 596) اور فتاوی عالمگیری میں ہے کہ (نتف الفنیکین بدعۃ وھو جنب العفقۃ وھی شعر الشفۃ السلفی)دونوں کوٹھوں کو اکھاڑنا بدعت ہے، اور وہ بچی کے دونوں جانب کے بال ہیں، اور بچی کے نچلے ہونٹ کے بال ہیں، ﴿عالمگیری 5}اور سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں؛- بال بداہۃً سلسلہ ریش میں واقع ہیں' کہ اس سے کسی طرح امتیاز نہیں رکھتے تو انہیں داڑھی سے جدا ٹھہرانے کی کوئی وجہ وجیہ نہیں- وسط میں جو بال ذرا سے چھوڑے جاتے ہیں، جنہیں عربی میں عنفقۃ اور ہندی میں بچی کہتے ہیں، داخل ریش ہیں، (جیساکہ امام بدر الدین عینی نے اس کی تصریح فرمائی اور ان سے سیرت شامیہ میں نقل کیا گیا ہے ) لہذا امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہوا کہ جو کوئی انہیں منڈاتا اس کی گواہی رد فرماتے ہیں، (جیساکہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے مدارج النبوۃ میں ذکر فرمایا-ت) تو بیچ میں یہ دونوں طرف کے بال جنہیں عربی میں فنیکین ہندی میں کوٹھے کہتے ہیں, کیوں کر داڑھی سے خارج ہوسکتے ہیں، داڑھی کے باب میں حکم احکم حضور پرنور سید عالم ﷺ (داڑھیاں بڑھاؤ، اور زیادہ کرو,) ہے تو اس کے کسی جز کا مونڈنا جائز نہیں (صحیح البخاری کتاب اللباس باب اعفاء اللحی ) لاجرم علماء نے تصریح فرمائی کہ کوٹھوں کا نتف یعنی اکھیڑنا بدعت ہے، امیر المومنین عمر ابن عبدالعزیز رضی اللّٰہ عنہ نے ایسے شخص کی گواہی رد فرمائی (العطا یا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ 22/ 597)اور حضور صدرالشریعہ بدرالطریقہ علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں؛ بچی کے اغل بغل کے بال مونڈانا یا اکھیڑنا بدعت ہے،، ﴿بہار شریعت 16} لیکن ایک بات اور ہے کہ اگر بچی کے بال اتنے طویل اور کثیر ہوجائیں، کہ کھانے پینے اور کلی کرنے میں رکاوٹ بنیں، تو انہیں بقدر حاجت کاٹنا جائز ہے (یجوز قص الاشعار التی کانت من الفنیکین اذا زحمت فی المضمضۃ او الاکل او الشرب) اگر نچلے ہونٹ کے دونوں کناروں کے بال کلی کرنے اور کھانے پینے میں رکاوٹ ہوں، تو انہیں کترنا جائز ہے اور سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ ہاں اگر یہاں بال اس قدر طویل وانبوہ ہوکہ کھانا کھانے، پانی پینے، کلی کرنے میں مزاحمت کریں' تو ان کا قینچی سے بقدر حاجت کم کر دینا روا ہے (العطا یا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ 22/ 599)یاد رکھیں داڑھی حد شرع سے کم کرانا اور اس پر اصرار کرنا گناہ کبیرہ ہے کہ قطع لحیہ کو فقہاء کرام ناجائز فرماتے ہیں، اور صغیرہ پر اصرار کبیرہ وفسق ہے (فتاویٰ امجدیہ جلد چہارم صفحه 174)[[ماخوذ؛ فتاویٰ غوثیہ جلد اول صفحه 294]]
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ فقیر محمد عمران رضا ساغر دہلوی
0 Comments:
براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ