Headlines
Loading...
فتاوی رضویہ کی عبارت ”عرس وغیرہ سب ناجائز وحرام ہے“کا خلاصہ

فتاوی رضویہ کی عبارت ”عرس وغیرہ سب ناجائز وحرام ہے“کا خلاصہ



                 السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ

مسئلہ:۔ کیا فرما تے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ زید سے بحث ہو ئی جو دیو بندی ہے دوران بحث زید نے کہا کہ نیاز میں غوث پاک کو نذر کرنا اور اللہ تعالیٰ کو نہ کرنا کفر ہے۔حضور ﷺ کو حاضر وناظر ماننا اہل سنت کا عقیدہ نہیں ہے۔عرس وغیرہ سب ناجائز و حرام ہے اور دلیل میں فتاوی رضویہ کی عبارت پیش کرتا ہے۔ (۱) نذر کرتے وقت خاص پیران پیر علیہ الرحمہ کا نام ذکر کرے اور اللہ تبارک و تعالی کا ذکر چھوڑ دے جیسا کہ جاہلوں کی عادت ہے ناجائز ہے بلکہ کفر کا خوف ہے۔(فتاوی رضویہ جلد ۲۹/ ۲۰۶) (۲)یارسول اللہ کہنا بے ادبی کی جگہوں کے سوا ہر وقت جائز ہے مگر سرور کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو حاضر جاننا عقیدہ اہلسنت و جماعت کے خلاف ہے اور صحیح نہیں ہے۔(فتاوی رضویہ جلد ۲۰۷/۲۹) (۳)عرس وغیرہ سب ناجائز و حرام ہے اور ایسا کرنا زیارت کرنے کے طریقہ اور آداب کے خلاف ہے۔(فتاوی رضویہ جلد ۲۰۹/۲۹) دریافت طلب یہ امر ہے کہ کیا اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ نے لکھا ہے؟اگر نہیں لکھا ہے تو فتاوی رضویہ میں یہ عبارت کیسے چھپ گئی؟اور اگر لکھا ہے تو ان عبارتوں یا کتابوں کا کیا حکم ہوگا جہاں پر اس کے بر عکس تحریر ہے؟امید ہے کہ جملہ علمائے کرام مل کر اس کا حل ضرور نکالیں گے۔              

                المستفتی:۔عبد اللہ رضوی ما لیگاؤں 
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
               وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ 

                      الجواب بعون المک الوہاب

اول تو یہ جسے علم نہ ہو فرقہائے باطلہ سے بحث و مباحثہ نہ کریں بلکہ ان سے دور رہیں حدیث شریف میں ”فایاکم وایاھم لایضلّونکم ولا یفتنونکم“توان سے دور رہو اور انہیں اپنے سے دور رکھوکہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں کہیں تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں۔ (صحیح مسلم) چونکہ بدمذہب اتنے کمینے ہو تے ہیں کہ مکر وفریب سے کام لیتے ہیں جیسے یہاں پر دھو کا دیا فتاوی رضویہ کا حوالہ دیکر. اصل عبارت فتاوی رضویہ کی تو ہے مگر سرکارا علیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کا فتوی نہیں ہے بلکہ ایک فاضل دیو بند کا فتوی ہے جس کو سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کے بار گا ہ میں پیش کرکے جواب طلب کیا گیا پھرسرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ نے جو جواب دیا ہے وہ ملا حظہ کریں فرما تے ہیں ایسی جگہ تو یہ سوال کرنا چاہیے کہ رشید احمد گنگوہی و اشرف علی تھانوی و قاسم نانوتوی اور محمود حسن دیوبندی و خلیل احمد انبیٹھی اور ان سب سے گھٹ کر ان کے امام اسمعیل دہلوی اور ان کی کتابوں براہین قاطعہ وتحذیر الناس وحفظ الایمان و تقویۃ الایمان و ایضاح الحق کو کیسا جانتے ہو اور ان لوگوں کی نسبت علمائے حرمین شریف نے جو فتوے دیئے ہیں انہیں باطل سمجھتے ہو یا حق مانتے ہو اور اگر وہ ان فتوؤں سے اپنی ناواقفی ظاہر کرے تو بریلی مطبع اہلسنت سے حسام الحرمین منگالیجئے اور دکھائیے اگر بکشادہ پیشانی تسلیم کرے کہ بیشک علمائے حرمین شریفین کے یہ فتوے حق ہیں تو ثابت ہوگا کہ دیوبندیت کا اُس پر کچھ اثر نہیں ورنہ علمائے حرمین شریفین کا وہی فتوٰی ہے کہ”من شک فی عذابہ وکفرہ فقد کفر“جو اس کے عذاب اور کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔اس وقت آ پ کو ظاہر ہوجائے گا کہ جو شخص اللہ و رسول کو گالیاں دینے والوں کو کافر نہ جاننا درکنار علمائے دین واکابر مسلمین جانے وہ کیونکر مسلمان، پھر مسئلہ عرس وفاتحہ و فرعی مسائل کا اس کے سامنے ذکر کیا ہے۔(فتاوی رضویہ جلد ۲۱۲/۲۹/دعوت اسلامی) اس عبارت سے معلوم ہوگیا کہ وہ فتوی سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کا نہیں ہے بلکہ سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ نے اس کے برعکس فتوی دیا ہے ملاحظہ ہو۔ (۱) دیوبندی صاحب نے لکھا کہ نذر کرتے وقت خاص پیران پیر علیہ الرحمہ کا نام ذکر کرے اور اللہ تبارک و تعالی کا ذکر چھوڑ دے جیسا کہ جاہلوں کی عادت ہے ناجائز ہے بلکہ کفر کا خوف ہے،لیکن سرکاراعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کیا تحریر فرما تے ہیں ملاحظہ کریں”کسی عمل کاثواب مولی تعالی کی نذرکرنا محض جہالت ہے وہ غنی مطلق ہے“(فتاوی رضویہ جلد ۲۶/ص۶۰۹/دعوت اسلامی) (۲)دیوبندی صاحب نے لکھا کہ یارسول اللہ کہنا بے ادبی کی جگہوں کے سوا ہر وقت جائز ہے مگر سرور کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو حاضر جاننا عقیدہ اہلسنت و جماعت کے خلاف ہے اور صحیح نہیں ہے،لیکن سرکاراعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کیا تحریر فرما تے ہیں ملاحظہ کریں”حاضر و ناظر اس (اللہ تعالی)کی عطا سے اُس کے محبوب علیہ افضل الصلوۃ والسلام ہیں، کما فی رسائل الشیخ عبدالحق محدث الدہلوی قدس سرہ “(فتاوی رضویہ جلد ۲۹/ص۳۳۴/دعوت اسلامی) (۳)دیوبندی صاحب نے لکھا کہ عرس وغیرہ سب ناجائز و حرام ہے اور ایسا کرنا زیارت کرنے کے طریقہ اور آداب کے خلاف ہے۔لیکن سرکاراعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کیا تحریر فرما تے ہیں ملاحظہ کریں”عرس مشائخ کہ منکرات شرعیہ مثلاً رقص ومزامیر وغیر سے خالی ہو اسی طرح اولیائے کرام وسائل بارگاہ ونوابِ حضرت احیائے معنی واموات صورۃ قدست اسرارہم سے استعانت واستمداد جبکہ بطور توسّل وتوسط وطلبِ شفاعت ہو، نہ معاذاللہ بظنِ خبیث، استقلال وقدرت ذاتہ، جس کا توہم نہ کسی مسلم سے معقول نہ مسلمان ہونے پر سوئے ظن مقبول، یہ سب امور شرعاً جائز وروا ومباح ہیں جن کے منع پر شرع مطہرہ سے اصلاً دلیل نہیں۔(فتاوی رضویہ جلد ۹/ص۴۲۲/دعوت اسلامی)

                          واللہ اعلم بالصواب

کتبہ فقیر تاج محمد قادری واحدی ۱/ ذی القعدہ ۱۴۴۱ھ  ۲۳/ جون ۲۰۲۰ بروز منگل

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ