Headlines
Loading...
کیا قربانی کرانے والے کو ناخون کاٹنا منع ہے؟

کیا قربانی کرانے والے کو ناخون کاٹنا منع ہے؟


                السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ

مسئلہ:۔ کیا فرما تے ہیں ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ کیا مالک نصاب پر لازم ہے کہ قربانی سے پہلے بال و ناخن نہ کاٹے؟بینوا توجروا 

                 المستفتی:۔ساجد علی چاکن پونہ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
               وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکا تہ

                    الجواب بعون المک الوہاب

جس کے نام قربانی ہو اسے چا ہئے کہ قربانی سے پہلے بال وناخن نہ کا ٹے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے ”وَعَنْ اُمِّ سَلَمَۃَرضی اللہ عنہا قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ وَاَرَادَ بَعْضُکُمْ اَنْ ےُّضَحِّیَ فَلَا ےَمَسَّ مِنْ شَعْرِہٖ وَبَشَرِہٖ شَےْءًا وَّفِیْ رَوَاےَۃٍ فَلَا ےَاْخُذَنَّ شَعْرًا وَّلَا ےَقْلِمَنَّ ظُفْرًا وَّفِیْ رِوَاےَۃٍ مَّنْ رَّاٰی ھِلَالَ ذِی الْحِجَّۃِ وَاَرَادَ اَنْ ےُّضَحِّیَ فَلَا ےَاْخُذْ مِنْ شَعْرِہٖ وَلاَ مِنْ اَظْفَارِہٖ“اور حضرت ام سلمہ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب ذی الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہوجائے تو تم میں سے جو آدمی قربانی کرنے کا ارادہ کرے وہ (اس وقت تک کہ قربانی نہ کرے) اپنے بال اور ناخن بالکل نہ کتروائے ایک روایت میں یوں ہے کہ نہ بال کٹوائے اور نہ ناخن کتروائے،ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جو آدمی بقر عید کا چاند دیکھے اور وہ قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ (قربانی کے کرنے تک) اپنے بال اور ناخن نہ کٹوائے۔(مشکوٰۃ المصابیح قربانی کا بیان حدیث نمبر۱۴۳۳) مگر یہ فعل واجب نہیں بلکہ مستحب بلکہ اگر ۳۱/ دن یا اس سے اوپر ہو گیا ہیے تو کاٹنا واجب ہو جا تا ہے کیونکہ چالیس دن سے زیادہ رکھنا گناہ ہے جیسا کہ سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ تحریر فرما تے ہیں کہ یہ حکم صرف استحبابی ہے کرے تو بہترہے نہ کرے تو مضائقہ نہیں، نہ اس کو حکم عدولی کہہ سکتے ہیں نہ قربانی میں نقص آنے کی کوئی وجہ، بلکہ اگر کسی شخص نے ۳۱/دن سے کسی عذر کے سبب خواہ بلا عذر ناخن تراشے ہوں نہ خط بنوایا ہو کہ چاند ذی الحجہ کا ہوگیاتو وہ اگر چہ قربانی کاارادہ رکھتا ہو اس مستحب پر عمل نہیں کرسکتا اب دسویں تک رکھے گا تو ناخن وخط بنوائے ہوئے اکتالیسواں دن ہوجائے گا،اور چالیس دن سے زیادہ نہ بنوانا گناہ ہے، فعل مستحب کے لئے گناہ نہیں کرسکتا۔(فتاوی رضویہ جلد ۲۰/ ص ۳۵۳ /۳۵۴/ دعوت اسلامی)

                        واللہ اعلم بالصواب


کتبہ فقیر تاج محمد قادری واحدی ۲۵/ ذی القعدہ ۱۴۴۰ ھ   ۲۸/ جو لا ئی ۲۰۱۹ بروز اتوار

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ