Headlines
Loading...
چمڑہ اوراوجھڑی کھانا کیسا ہے؟

چمڑہ اوراوجھڑی کھانا کیسا ہے؟

                  السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ

مسئلہ:۔ کیا فرما تے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ قربانی کے جانور کا چمڑہ اور اوجھری کھانا کیسا ہے؟ اگر منع ہے تو اسے کیاکیاجا ئے؟بینوا توجروا

             المستفتی:۔محمد ہارون گلبرگہ شریف 
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
               وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ 

                      الجواب بعون المک الوہاب

حلال جانوروں کا چمڑہ حلال ہے جبکہ شرعی طریقے سے ذببح کیا گیا ہو خواہ وہ مرغ ہو یا بکرہ یا گا ئے قربا نی کا ہو یا غیر قربا نی،جو کھانا چاہے وہ کھا سکتا ہے کو ئی حرج نہیں جیسا کہ سیدی سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ تحریر فرما تے ہیں کہ مذبوح حلال جانور کی کھال بیشک حلال ہے شرعا اس کا کھانا ممنوع نہیں اگر چہ گائے، بھینس بکری کی کھال کھانے کے قابل نہیں ہوتی فی الدرالمختار”اذا ماذکیت شاۃ فکلہا سوی سبع ففیہن الوبال، فحاء ثم خاء ثم غین ودال ثم میمان وذال انتہی فالحاء الحیاء وھو الفرج، والخاء الخصیۃ، والغین الغدۃ، والدال الدم المسفوح، والمیمان المرارۃ والمثانۃ، والذال الذکر“(درمختار مسائل شتی مطبع مجتائی دہلی ۲ /۳۴۹/فتاوی رضویہ جلد ۲۰/ ص۲۳۳/ دعوت اسلا می) چونکہ گا ئے بھینس بکرہ وغیرہ کا چمڑہ کھا نے کے قابل نہیں ہو تا ہے اور نہ ہی لوگ کھا تے ہیں اس لئے اسے اپنے کام میں لا سکتے ہیں یا دوست واحباب غریب مساکین کو دے سکتے ہیں یا مسجد مدرسہ کو بھی دے سکتے ہیں خواہ چمڑہ ہو یا بیچ کر اس کی قیمت البتہ اپنے لئے نہیں بیچ سکتے اور اگر کسی نے بیچ دیا تو اس رقم کو صدقہ کرنا ہوگا۔علا مہ صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرما تے ہیں کہ قربانی کے چمڑے کو ایسی چیزوں سے بدل سکتا ہے جس کو باقی رکھتے ہوئے اوس سے نفع اٹھایا جائے جیسے کتاب، ایسی چیز سے بدل نہیں سکتا جس کو ہلاک کر کے نفع حاصل کیا جاتا ہو جیسے روٹی، گوشت، سرکہ، روپیہ، پیسہ اور اگر اس نے ان چیزوں کو چمڑے کے عوض میں حاصل کیا تو ان چیزوں کو صدقہ کر دے۔ اگر قربانی کی کھال کو روپئے کے عوض میں بیچا مگر اس لئے نہیں کہ اس کو اپنی ذات پر یا بال بچوں پر صرف کریگا بلکہ اس لئے کہ اسے صدقہ کر دے گا تو جائز ہے جیسا کہ آج کل اکثر لوگ کھال مدارس دینیہ میں دیا کرتے ہیں اور بعض مرتبہ وہاں کھال بھیجنے میں دقت ہوتی ہے اوسے بیچ کر روپیہ بھیج دیتے ہیں یا کئی شخصوں کو دینا ہوتا ہے اوسے بیچ کر دام ان فقرا پر تقسیم کر دیتے ہیں یہ بیع جائز ہے اس میں حرج نہیں اور حدیث میں جو اس کے بیچنے کی ممانعت آئی ہے اس سے مراد اپنے لیے بیچنا ہے۔(بہار شریعت ح ۱۵) اوجھڑی کھانامکروہ تحریمی قریب حرام ہے خواہ قربا نی کا ہو یا غیر قربا نی کا خواہ وہ کسی بھی جا نور کا ہو سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ تحریر فرما تے ہیں کہ حلال جانور کے سب اجزاء حلال ہیں مگر بعض کہ حرام یا ممنوع یا مکروہ ہیں (۱) رگوں کا خون (۲) پتا (۳) پُھکنا (۴/۵) علامات مادہ ونر (۶) بیضے (۷) غدود (۸) حرام مغز (۹) گردن کے دو پٹھے کہ شانوں تک کھنچے ہوتے ہیں (۱۰) جگر کا خون (۱۱) تلی کا خون (۱۲) گوشت کا خون کہ بعد ذبح گوشت میں سے لکھتا ہے (۱۳) دل کا خون (۱۴) پت یعنی وہ زرد پانی کہ پتے میں ہوتاہے (۱۵) ناک کی رطوبت کہ بھیڑ میں اکثر ہوتی ہے (۱۶) پاخانہ کا مقام (۱۷) اوجھڑی (۱۸) آنتیں (۱۹) نطفہ (۲۰) وہ نطفہ کہ خون ہوگیا (۲۱) وہ کہ گوشت کا لوتھڑا ہوگیا (۲۲) وہ کہ پورا جانور بن گیا اور مردہ نکلا یا بے ذبح مرگیا۔(فتاوی رضویہ جلد ۲۰/ص۲۴۰/ دعوت اسلامی) فتاوی فیض الرسول میں فقیہ ملت مفتی جلا الدین علیہ الرحمہ نے کئی جگہ اوجھڑی کو مکروہ تحریمی لکھا ہے نیز ایک رسالہ بھی بنام ”اوجھڑی کے مسائل“تحریر فرمایا ہے جس پر متعدد علمائے کرام کت دستخط موجود ہیں اسے دیکھ سکتے ہیں

                         ۔واللہ اعلم بالصوب

کتبہ فقیر تاج محمد قادری واحدی ۲۹/ شوال المکرم ۱۴۴۱ھ ۲۲/ جون ۲۰۲۰ ء بروز پیر

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ