Headlines
Loading...
سورہ ملک کا پانی دم کرکے قبر پر ڈالنا کیسا ہے؟

سورہ ملک کا پانی دم کرکے قبر پر ڈالنا کیسا ہے؟


               السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ

مسئلہ:۔ کیا فرما تے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ کسی کے مرنے کے بعد اس کی قبر پر سورہ ملک پڑھ کر پانی پر دم کر کے ڈالنا کیسا ہے؟اور اس سے مردے کو کچھ فائدہ پہونچے گا کہ نہیں؟بینوا تو جروا

                  المستفتی:۔عبداللہ لکھنؤ یو، پی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
                  وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ 

                        الجواب بعون المک الوہاب

بعد دفن قبر پر پا نی ڈالنا مسنون ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ”عَنْ جَا بِرٍ قَالَ رُشَّ قَبْرُ النَّبِیِّ ﷺ وَکَا نَ الَّذِی رَشَّ الْمَآءَ عَلٰی قَبْرِہٖ بِلَا لُ بْنِ رَبَا حٍ بِقِرْبَۃٍ بَدَاَ مِنْ قِبَلِ رَاْسِہٖ حَتّٰی اَنْتَھٰی اِلٰی رِجْلَیْہِ“حضرت جا بر رضی اللہ عنہ نے فرما یا کہ نبی پا ک ﷺ کی قبر مبا رکہ پر پا نی چھڑکا گیاچھڑکنے وا لے حضرت بلا ل بن ربا ح تھے جنھو نے مشکیزے سے آپ کی قبر پر پا نی چھڑکا سر ہا نے سے شرو ع کیا اور قد موں تک چھڑ کا۔ (رواہ البیہقی،مشکوٰۃ باب دفن ا لمیت ا لفصل الثانی صفحہ۱۴۹) یونہی دفن کے بعد عرصہ گزر گیا اور قبر کی مٹی منتشر ہو گئی ہے جب بھی ڈال سکتے ہیں تاکہ قبر کے نشان با قی رہے اور جب پا نی ڈال سکتے ہیں تو سورہ ملک پڑھ کر دم کرکے بھی ڈال سکتے ہیں کو ئی حرج نہیں ہاں اگر قبر کی مٹی منتشر نہ ہو ئی ہو تو بلا وجہ پا نی ڈالنا منع ہے کہ پا نی ضائع کرنا ہے خواہ سورہ ملک پڑھ کر پا نی ڈالا جا ئے یا یونہی،جیسا کہ سیدی سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ تحریر فرما تے ہیں بعد دفن قبر پر پانی چھڑکنا مسنون ہے اور اگر مرورِ زمان سے اس کی خاک منتشر ہوگئی ہوا ور نئی ڈالی گئی یا منتشر ہوجانے کا احتمال ہو تو اب بھی پانی ڈالا جائے کہ نشانی باقی رہے اور قبر کی توہین نہ ہونے پائے ”بہ علل فی الدر وغیرہ ان لایذھب الاثر فیمتھن“ درمختار وغیرہ میں یہ علّت بیان فرمائی ہے کہ نشانی مٹ جانے کے سبب بے حرمتی نہ ہو۔ اس کے لئے کوئی دن معین نہیں ہوسکتا ہے جب حاجت ہو اور بے حاجت پانی کا ڈالنا ضائع کرنا ہے اور پانی ضائع کرنا جائز نہیں۔(فتاوی رضویہ جلد ۹/ ص۳۷۴/دعوت اسلامی) ایک دوسری جگہ فرما تے ہیں کہ قبر اگر پختہ ہے اس پر پانی ڈالنا فضول وبے معنی ہے، یونہی اگر کچی ہے اور اس کی مٹی جمی ہوئی ہے۔ ہاں اگرکچی ہے اور مٹی منتشر ہے تو اس کے جم جانے کوپانی ڈالنے میں حرج نہیں، جیسا کہ ابتدائے دفن میں خود سنت ہے۔(فتاوی رضویہ جلد ۹/ ص۶۱۱/دعوت اسلامی) خلاصہ کلا یہ ہے کہ مٹی جمانے کے اور نشان با قی رکھنے کے لئے پا نی ڈال سکتے ہیں خواہ یو نہی یا کو ئی سورہ پڑھ کر،البتہ اگر کو ئی سورہ پڑھ کر ڈالا جا ئے تو اس با ت کا خاص خیال رکھا جا ئے کہ پا نی قبر کے ارد گرد وہاں تک نہ جا ئے جہاں پا ؤں پڑنے کااندیشہ ہو، اور یہ خیال کرنا کہ اس سے مردہ کو فائدہ پہونچے گا یہ خیال باطل ہے کہ مردہ کو فائدہ پہونچانے کے لئے پا نی نہیں ڈالا جا تا ہے جیسا کہ اوپر مذکور ہوا ہاں اگر قبر کے اوپر پھول یا کو ئی ہرا پتہ پہلے سے رکھا ہوا ہے تو اس کو تازہ رکھنے کے لئے پا نی ڈال سکتے ہیں کہ جب تک پتہ تازہ رہے گا اس سے مردہ کو انس حااصل ہو گی اور اگر معاذ اللہ گنہگار ہے تو عذاب میں تخفیف ہو گی جیسا کہ حسیث شریف میں ہے”عَنِ بْنِ عَبَّا سٍ قَا لَ مَرَّ النَّبِیُّ ﷺ بِحَا ءِطٍ مِنْ حِیْطَانِ الْمَدِیْنَۃِ اَوْ مَکَّۃَ فَسَمِعَ صَوْتَ اِنْسَانَیْنِ یُعَذِّبَانِ فِی قُبُوْرِھِمَا فَقَا لَ النَّبِیُّ ﷺیُعَذَّبَان وَ مَا یُعَذَّبَانِ فِیْ کَبِیْرٍ ثُمَّ قَالَ بَلٰی کَانَ اَحَدُ ھُمَا لَا یَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِہٖ وَکَانَ الْاٰخَرُ یَمْشِیْ بِا النَّمِیْمَۃِ ثُمَّ دَعَا بِجرِیْدَۃٍ فَکَسَرَہَا کِسْرَتَیْنِ فَوَضَعَ عَلٰی کُلِّ قَبْرٍ مِّنْھُمَا کِسْرَۃً فَقِیْلَ لَہٗ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ لِمَ فَعَلْتَ ھٰذَا قَالَ لَعَلَّہٗ اَنْ یُّخَفَّفَ عَنْھُمَا مَا لَمْ تَیْبَسَا“حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ مدینہ طیبہ یا مکہ معظمہ کے باغات میں سے کسی باغ میں تشریف لے گئے تو دوآدمیوں کی آواز سنی جن پر انکی قبر میں عذاب ہو رہاتھا، آپ نے فرمایا ان دونوں پر عذاب ہو رہا ہے مگر کسی بڑی بات پر نہیں پھر فرمایا ہاں (یعنی خدائے تعالیٰ کے نز دیک بڑی بات ہے) ان میں سے ایک تو اپنے پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کیا کرتا تھا پھر آپ نے کھجور کی ایک تر شاخ منگوائی اور اسکے دوٹکڑے کئے اور ہر ایک کے قبر پر ایک ایک ٹکڑا رکھ دیا حضور سے عرض کیا گیا یا رسول اللہ! ﷺیہ آپ نے کیوں کیا؟فرمایا کہ جب تک یہ شاخیں خشک نہ ہوجائیں ان دونو ں پر عذاب کم رہے گا۔ (بخا ری جلد اول صفحہ ۳۵/۳۴؍کتاب الوضو) 

                      واللہ تعالی اعلم بالصواب 

کتبہ فقیر تاج محمد قادری واحدی ۲۹/ شوال المکرم ۱۴۴۱ھ ۲۲/ جون ۲۰۲۰ ء بروز پیر

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ