Headlines
Loading...
قسم کھانا از روئے شرع کیســـاھے

قسم کھانا از روئے شرع کیســـاھے

               السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 

علماء کرام کی بارگاہ میں ایک سوال ہے کہ قسم کھانہ کیسا ہے نیز کیا قسم کا کفارہ لازم ہوگا اور جو قسم رکھی گئی تو کیا اس پر عمل کرنا ضروری ہے اور اس کے بر خلاف کرنے میں نقصان کا اندیشہ ہے تشفی بخش جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی

                 سائل؛ محمد وسیم شاہ یو پی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
              وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

                 الجوابـــــ بعون الملکـــــ الوھاب 

اگر قسم مستقبل کے کسی ایسے کام کی یقین دہانی کے لئے، جس پر قائم رہنا شرعاً جائز ہے، قسم کھانا یا قسم لینا شرعاً جائز ہے، لیکن شرعاً یہ پسندیدہ اور مستحسن امر نہیں-۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ("ولا تجعلوا اللہ عرضۃ لایمانکم") ترجمہ؛- اور اللہ کی ذات{اور مقدس نام} کو اپنی قسموں کا نشانہ نہ بناؤ-﴿البقرہ, ۲۲۴﴾قرآن مجید کی سورۃ القلم آیت نمبر 10 میں ایک دشمن رسول کے اوصاف ذمیمہ کو بیان کیا گیا ہے، جن میں سے ایک'" حلّاف '" یعنی بکثرت قسمیں کھانے والا ہے، لہذا حتی الامکان ہمیں قسم وغیرہ کھانے سے پرہیز کرنا چاہیے، اگرچہ وہ جائز قسم ہو،، لیکن اگر قسم کھا لیا تو پھر اس کی حفاظت کی جائے جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے(واحفظوا ایمانکم)ترجمہ:- اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو، ﴿المائدہ ۸۹﴾لیکن اگر خدانخواستہ وہ قسم توڑ دیتا ہے، تو اسے قسم کا کفارہ دینا ہوگا' جو قرآن مجید کی سورۃ مائدہ کی آیت 89 میں بیان کیا گیا ہے، یعنی اپنے اوسط معیار کے مطابق دس مساکین کو دو وقت کا کھانا کھلانا یا انہیں لباس فراہم کرنا' اور جو یہ نہ کر سکے، تو وہ تین دن کے روزے رکھے، [تفہیم المسائل جلد سوم صفحه 406]

                       واللہ اعلم بالصواب

              کتبہ فقیر محمد عمران رضا ساغر

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ