Headlines
Loading...
کم عمر میں بچوں کا نکاح کرنا کیسا ہے

کم عمر میں بچوں کا نکاح کرنا کیسا ہے

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرْکَتَہُ

کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا والدین اپنے بچی کا نکاح کم عمری میں کرا دئیے لیکن بچی بالغ ہونے کے بعد انکار کر دیں تو کیا حکم ہے بحوالہ جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی

سائل محمد تسلیم رضا رضوی اورنگاباد 
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
وعلیکم السلام ورحمۃ الله وبرکاتہ 

الجواب بعون الملک الوھاب

صورت مسئولہ میں والدین نے اپنی بچی کا نکاح کم عمر میں کردیا تو نکاح لازم ہوگیا اب لڑکی بالغ ہو نے کے بعد انکار نہیں کر سکتی لڑکی کا انکار کرنا بیکار ہے جیسا کہ فتاوی فیض الرسول میں ہے ۔حالات نابالغی میں باپ کا کیا ہوا نکاح لازم ہو جاتا ہے بعد بلوغ لڑکی کا اس سے انکار کرنا فضول ہے ۔ ہاں نکاح سے پہلے باپ کا سوء اختیار معلوم ہو چکا ہو مثلا باپ نے اس سے پہلے اپنی کسی نابالغہ لڑکی کا نکاح غیر کفو یا مہر مثل میں فاحش کمی کے ساتھ کیا تھا اور پھر اس لڑکی کا نکاح غیر کفو یا مہر مثل میں فاحش کمی کے ساتھ کیا تو نکاح نہیں ہوا اس صورت میں لڑکی طلاق حاصل کیے بغیر دوسرا نکاح کر سکتی ہے ، اور اگر باپ کا سوءاختیار نہ معلوم ہو تو اس کا کیا ہوا نکاح نابالغہ لڑکی کے لیے لازم ہو جاتا ہے بالغ ہو نے کے بعد اس لڑکی کا انکار کرنا لغو ہے اس صورت میں طلاق حاصل کیے بغیر دوسرا نکاح ہر گز نہیں کر سکتی جیسا کہ در مختار مع شامی جلد دوم صفحہ ۳۰۴ میں ہے :لزم النکاح ولو بغبن فاحش او بغیر کفوء ان کان الولی ابا او جدا لم یعرف منھما سوء الاختیار وان عرف لا یصح النکاح اتفاقا (فتاوی فیض الرسول جلد اول صفحہ ۶۲۲) اور اسی طرح فتاوی فقیہ ملت میں ہے۔ کہ باپ دادا کا کیا ہوا نکاح اس طرح لازم ہو جاتا ہے کہ لڑکی کو بالغ ہونے کے بعد اختیار فسخ نہیں ہوتا اگر چہ باپ دادا نے مہر مثل سے کم میں یا غیر کفو سے نکاح کر دیا ہو بشرطیکہ ان کاسوء اختیار نہ معلوم ہو یعنی اس کے باپ دادا نے اس سے پہلے اپنی کسی نابالغہ لڑکی کا نکاح کسی غیر کفو فاسق سے نہ کیا ہو۔ ایسا ہی بہار شریعت حصہ ہفتم میں ہے ۔ اور در مختار مع شامی جلد دوم میں ہے ۔لزم النکاح ولو بغبن فاحش بغیر کفوء ان کان الولی ابا او جدا لم یعرف منھما سوء الاختیار اگر باپ یا دادا کے علاوہ کسی دوسرے ولی مثلا چچا وغیرہ نے لڑکی کا نکاح کیا اور لڑکی کا باپ مرگیا ہو تو اس صورت میں اگر لڑکا لڑکی کا کفو نہیں یا اسکا جس قدر مہر مثل تھا اس سے کم باندھا تو یہ نکاح بالکل صحیح نہ ہوا یہاں تک کہ اگروہ لڑکی بالغہ ہونے کے بعد جائز رکھے تب بھی جائز نہ ہوگا ایسا ہی فتاوی رضویہ جلد پنجم اور صفحہ ۳۲۴ پر ہے۔ اور در مختار مع شامی جلد دوم صفحہ ۳۳۱ پر ہے ۔ ان کان الزوج غیرالاب وابیہ ولو الام لا یصح النکاح من غیر کفوء وبغبن فاحش اصلا ۔(فتاوی فقیہ ملت جلد اول صفحہ ۴۱۱ باب الولی والکفو )نوٹ اگر باپ یا دادا کے علاوہ کسی دوسرے ولی مثلا چچا وغیرہ یا ماں نے لڑکی کا نکاح کردیا اور لڑکا لڑکی کا کفو ہے اور مہر مثل بھی باندھا تو نکاح صحیح ہو گیا مگر لڑکی کو بعد بلوغ اختیار رہے گا کہ اس نکاح کو باقی رکھے یا فسخ کردے ۔جیساکہ فتاوی عالمگیری جلد اول صفحہ ۲۸۵ میں ہے ۔وان زوجھما غیرالاب والجد فلکل واحد منھا الخیار اذا بلغ ان شاء اقام علی النکاح وان شاء فسخ عند حنیفۃ ومحمد رحمھما الله ۔اھ 

 والله اعلم ورسولہ بالصواب 

کتبہ محمد الیاس رضا۔ جامعہ قادریہ بشیر العلوم ۔شاہی بریلی شریف

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ