Headlines
Loading...
مسجد میں احتلام ہو جائے تو کیا حکم ہے

مسجد میں احتلام ہو جائے تو کیا حکم ہے



 السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

خیریت ھے قاری صاحب حضرت آپ سے ایک سوال درکار ہے ایک شخص نماز پڑھنے کیلئے مسجد میں داخل ہوا نماز کے بعد وہ مسجد میں سوگیا جب وہ نیند سے بیدار ہو اتو اسکو معلوم ہوا کہ مجھے احتلام ھوگیا ھے تواس کے لیئے کیا حکم ہے شریعت کے دائرے میں۔جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی۔

المستفتی محمد زاھد کلیان مہاراشٹر 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب

مسجد میں سویا اور اگر احتلام ہو جائے، تو اس سے چاہیے کہ آنکھ کھلتے ہی تیمم کرے، جس کے لیے یا تو پہلے ہی سے ایک کچی یا پکی اینٹ رکھ لی جائے، ورنہ مجبوری کی وجہ سے مسجد کے صحن یا دیوار پر ہاتھ مار کر مسنون طریقہ کے مطابق تیمم کرے، پھر غسل کے لئے مسجد سے باہر چلا جائے۔ جیسا کہ بہار شریعت میں ہے۔مسجد میں سویا تھا اور نہانے کی ضرورت ہوگئی تو آنکھ کھلتے ہی جہاں سویا تھا وہیں فوراً تیمم کر کے نکل آئے۔ بہار شریعت ج ۱ ح ۲ ص ۳۵۲ ناشر مکتبہ المدینہ باب المدینہ کراچی دعوت اسلامی تاخیرحرام ہے۔ اور میرے آقا اعلیٰ حضرت اِمامِ اَہلسنّت ولیٔ نِعمت عظیمُ البَرَکت عظیمُ المَرْتَبت پروانۂِ شمعِ رِسا لت مُجَدِّدِ دین ومِلَّت حامیِٔ سنّت مارکھحِیِٔ بِدعت عالِمِ شَرِیْعَت پیرِ طریقت باعِثِ خَیْر وبَرَکت حضرتِ علّامہ مولیٰنا الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رضا خان عَلیْہ ِرحمۃُ الرَّحمٰن فرماتے ہیں نکلنے کیلئے تیمم کا حکم وجوباً خواہ استجاباً اُس صورت میں ہونا چاہئے جبکہ عین کنارہ مسجد پر نہ ہو کہ پہلے ہی قدم میں خارج ہوجائے گا جیسے دروازے یا حُجرے یا زمین پیشِ حجرہ کے متصل سوتا تھا اور احتلام ہُوا یا جنابت(۵) یاد نہ رہی اور مسجد میں ایک ہی قدم رکھا تھا ان صورتوں میں فوراً ایک قدم  کر باہر ہوجائے کہ اس خروج میں مرور فی المسجد نہ ہوگا اور جب تک تیمم پُورا نہ ہو بحالِ جنابت مسجد میں ٹھہرنا رہے گا۔ ھذا ماعندی واللّٰہ تعالٰی اعلم۔فتاوٰی امام قاضی خان میں ہے کان الرجل فی المسجد فغلبہ النوم واحتلم تکلموا فیہ قال بعضھم لایباح لہ الخروج قبل التیمم وقال بعضھم یباح ۱؎ اھ آدمی مسجد میں تھا کہ اسے نیند آگئی اور احتلام ہوگیا اس کے بارے میں علماء نے کلام کیا ہے بعض نے کہاتیمم سے پہلے اس کیلئے نکلنا جائز نہیں۔ اور بعض نے کہا جائز ہے اھ۔ (۱؎فتاوٰی  قاضی خان فصل فیما یجوزلہ التیمم مطبوعہ نولکشور لکھنؤ ۱/۳۱ بحوالہ فتاوی رضویہ ج ۳ ص ۴۸۰ دعوت اسلامی۔) اور دوسرے مقام پر فرماتے ہیں وفی الاختیار شرح المختار ثم الشلبیۃ نام فی المسجد فاجنب قیل لایباح لہ الخروج حتی یتیمّم وقیل یباح ۱؎ اھ وفی تیمّم البحر عن المحیط(عہ۱) اصابتہ الجنابۃ فی المسجد قیل لایباح لہ الخروج من غیر تیمم اعتبارا بالدخول وقیل یباح لان فی الخروج تنزیہ المسجد عن النجاسۃ وفی الدخول تلویثہ بھا ۲؎ اھ۔اختیار شرح مختار پھر شلبیہ میں ہےمسجد میں سوگیا پھر اسے جنابت لاحق ہوئی کہا گیا جب تک تیمم نہ کرے اس کیلئے نکلنا جائز نہیں۔ اور کہا گیا کہ جائز ہے اھ۔ البحرالرائق کے باب تیمم میں محیط کے حوالہ سے ہے کسی کو مسجد میں جنابت لاحق ہُوئی تو کہا گیا کہ بغیرتیمم اس کیلئے نکلنا جائز نہیں جیسے جنبی کیلئے بغیرتیمم مسجد میں داخل ہونا جائز نہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ نکلنا بغیرتیمم کے بھی جائز ہے اس لئے کہ نکلنے میں مسجد کو نجاست سے خالی اور منزہ کرنا ہوگا جب کہ داخل ہونے میں اسے نجاست سے آلودہ کرنا ہوگا اس لئے حکم خروج کا دخول پر قیاس درست نہیں اھ  اس کے پیش نظر میں کہتا ہوں (اقول) خانیہ محیط اور اختیار میں وجوبِ تیمم کا قول مقدم رکھا ہے اور امام فقیہ النفس اسی کو مقدم کرتے ہیں جو اظہر واشہر ہو جیسا کہ فتاوٰی خانیہ کے شروع میں خود ہی اس کی تصریح فرمائی ہے تو معتمد قول یہی ہوگا جیسا کہ طحطاوی وشامی نے فرمایا اسی طرح دیگر حضرات نے بھی اسے مقدم رکھا ہے اور تقدیم دلیل ترجیح ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم حاظر ومبیح (ناجائز قرار دینے اور جائز قرار دینے والے) کے درمیان ہیں تو حاظر کو اختیار کرنے میں ہی زیادہ احتیاط ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ جو جائز کہتے ہیں وہ بھی تیمم سے منع نہیں کرتے بلکہ اسے مستحب کہتے ہیں اور جو ناجائز کہتے ہیں وہ تیمم کو واجب قرار دیتے ہیں توتیمم کرنے کی صورت متفق علیہ ہے (کسی کو اس کے جواز سے اختلاف نہیں) اور ترک تیمم کی صورت مختلف فیہ ہے (کیونکہ تیمم کو واجب کہنے والوں کے نزدیک ترکِ تیمم جائز نہیں) تو اُسی صورت کو اختیار کرنا بہتر اَولٰی ہے جو متفق علیہ ہے۔ واللہ سبحانہ وتعالٰی اعلم (حوالہ فتاوی رضویہ ج ۳ ص ۴۹۲ ناشر دعوت اسلامی۔)


واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب 

از قلم فقیر محمد اشفاق عطاری ۱۴ صفر المظفر ۱۴۴۲ ہجری ۰۲ اکتوبر ۲۰۲۰ عیسوی بروز جمعہ

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ