Headlines
Loading...
عورت کو تین یا پانچ دن حیض آ کر ختم ہو جائے تو کیا غسل کر کے جماع کر سکتے ہیں

عورت کو تین یا پانچ دن حیض آ کر ختم ہو جائے تو کیا غسل کر کے جماع کر سکتے ہیں



 اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

علماٸے کرام مفتیاں کرام اس مسلہ کی وضاحت فرما دیں کہ ایک عورت کو حیض آیا تین دن یا پانچ دن پھر ختم ہو گیا غسل کر لیا پاک ہو گٸ تو کیا شوہر جماع کر سکتا ھے اگر بحوالہ جواب مل جاٸے تو مدینہ مدینہ ہوجائے  


المستفتی محمد  علی رضوی پاکستان 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرْکَتَہُ 


الجواب بعون الملک اوہاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب 


اعلی حضرت عظیم البرکت الشاہ امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان قدس سرہ فتاوی رضویہ ج ۴ میں ارقام فرماتے ہیں کہ ،، جو حیض اپنی پُوری مدّت یعنی دس دن کامل سے کم میں ختم ہوجائے اس میں دو۲ صورتیں ہیں یاتو عورت کی عادت سے بھی کم میں ختم ہوا یعنی اس سے پہلے مہینے میں جتنے دنوں آ یا تھا اُتنے دن بھی ابھی نہ گزرے اور خُون بند ہوگیا جب تو اس سے صحبت ابھی جائز نہیں اگرچہ نہالے اور اگر عادت سے کم نہیں مثلاً پہلے مہینے سات۷ دن آ یا تھا اب بھی سات یا آٹھ روز آکر ختم ہُوا یا یہ پہلا ہی حیض ہے جو اس عورت کو آ یا اور دس۱۰ دن سے کم میں ختم ہوا تو اُس سے صحبت جائز ہونے کےلئے دو۲ باتوں سے ایک بات ضرور ہے یا(۱) تو عورت نہالے اور اگر بوجہ مرض یا پانی نہ ہونے کے تیمم کرنا ہو تو تیمم کرکے نماز بھی پڑھ لے خالی تیمم کافی نہیں یا(۲) طہارت نہ کرے تو اتنا ہوکہ اس پر کوئی نمازِفرض فرض ہوجائے یعنی نماز پنجگانہ سے کسی نماز کا وقت گزر جائے جس میں کم سے کم اس نے اتنا وقت پا یا ہو جس میں نہاکر سر سے پاؤں تک ایک چادر اوڑھ کر تکبیر تحریمہ کہہ سکتی تھی اس صورت میں بے طہارت کے بھی اُس سے صحبت جائز ہوجائے گی ورنہ نہیں مگر یہ کہ عورت کتابیہ یہودیہ یا نصرانیہ ہو تو اُس سے مطلقاً بے نہائے صحبت جائز ہے جبکہ انقطاع حیض ایام عادت سے کم میں نہ ہوا ہو۔فی الدر المختار یحل وطؤھا اذا انقطع حیضھا لاکثرہ بلا غسل وجوبا بل ندبا وان انقطع لاقلہ فان لدون عادتھا لم یحل (الوطؤ وان اغتسلت لان العود فی العادۃ غالب بحر) وان لعادتھا فان کتاب یۃ حل فی الحال (لانہ لااغتسال علیھا لعدم المطالب) والالایحل حتی تغتسل اوتتیمم بشرطہ (ھو فقد الماء بہ والصلٰوۃ بہ علی الصحیح کمایعلم من النھر و غیرہ وبھذا ظھر ان المراد التیمم الکامل المبیح للصلاۃ مع الصلاۃ بہ ایضا) اویمضی علیھا زمن یسع الغسل ولبس الث یاب والتحریمۃیعنی من آخر الوقت لتعلیلھم بوجوبھا فی ذمتھا حتی لوطھرت فی وقت العید لابد ان یمضی وقت الظھر کمافی السراج اھ مزیدا من ردالمحتار درمختار میں ہے: اگر عورت کا حیض ز یادہ دنوں کے بعد ختم ہو تو اس کے ساتھ غسل واجب بلکہ مستحب غسل سے بھی پہلے وطی کرنا جائز ہے اور اگر کم از کم مدت میں ختم ہو تو (دیکھیں گے) اگر عادت سے کم میں ختم ہو تو جماع جائز نہیں اگرچہ غسل کرلے کیونکہ عادت کی طرف لَوٹنا غالب ہے (بحرالرائق) اگر عادت کے مطابق ختم ہوا تو کتابیہ ہونے کی صورت میں اسی وقت وطی حلال ہوجائےگی کیونکہ اس پر غسل واجب نہیں اس لئے کہ اس سے (غسل کا) مطالبہ کرنے والی چیز (یعنی اسلام) نہیں۔ اگر وہ کتابیہ نہیں تو جب تک غسل یا شرائطِ تیمم پائے جانے کی صورت میں تیمم نہ کرے اس سے جماع جائز نہیں۔ صحیح قول کے مطابق (اس کےلئے تیمم کی) شرط یہ ہے کہ پانی نہ ہونا اور اس کے ساتھ نماز پڑھنا ہے جیسا کہ نہر (نہرالفائق) و غیرہ سے معلوم ہوتا ہے اس سے ظاہر ہوا کہ تیمم کامل مراد ہے جس سے نہ صرف یہ کہ نماز پڑھنا جائز ہوجائے بلکہ اس کے ساتھ نماز بھی پڑھ لے) یا اتنا وقت گزر جائے جس میں غسل کرکے کپڑے پہننے اور تکبیر تحریمہ کی گنجائش ہوکیونکہ انہوں نے اسی بات کو عورت کے ذمہ (نماز) واجب ہونے کی علت قرار د یا ہے حتی کہ اگر عید کے وقت پاک ہوجائے تو اس پر وقتِ ظہر گزرنا ضروی ہے جیسا کہ سراج میں ہے (انتہی) یہ ردالمحتار سے اضافہ کے ساتھ ہے ( دُرمختار ۱/۵۱) باب الحیض مطبوعہ مجتبائی دہلی ردالمحتار ۱/۲۱۵) باب الحیض مصطفی البابی مصر (فتاوی رضویہ شریف ج ۴ص ۶۴ مکتبہ دعوت اسلامی )  


واللہ و رسولہ اعلم باالصواب 


کتبہ العبدالاثیم خاکسار ابوالصدف محمد صادق رضامقام سنگھیا ٹھاٹھول (پورنیہ)خادم شاہی جامع مسجد پٹنہ بہار

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ