Headlines
Loading...
امام کے ساتھ مقتدی کا قرآت کرنا کیسا ہے

امام کے ساتھ مقتدی کا قرآت کرنا کیسا ہے



 اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎


کیا فرماتے ہیں علماٸے حق اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید جب جماعت سے نماز ادا کرتا ہے تو خود کی توجہ نماز میں رکھنے کے لٸے امام صاحب کی قرأت کے ساتھ ساتھ خود بھی پڑھتا رہتا ہے اگر ایسا نہ کرے تو نماز کی طرف سے توجہ بدل جاتی ہےایسا کرنا کیسا ہے


 المستفتی محمد واجد حسین علوی عطاری ممبر آف 2️⃣گروپ یارسول اللہﷺ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته


الجواب بعون الملك الوهاب اللهم هداية الحق والصواب

نماز میں امام کے پیچھے قرأت کرنا جائز نہیں ہے قرآن وحدیث میں خاموش رہنے کا حکم ہے توجہ کے لیے امام کی قرأت کو ہی توجہ سنے عن سفیان بن عیینه عن ابن طاؤس عن ابیه عن زید عن ثابت عن رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیه وسلم قال من قرأخلف الامام فلا صلٰوۃ له یعنی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی وعلیہ وسلم فرماتے ہیں امام کے پیچھے پڑھنے والے کی نماز نہیں ہوتی (نصب الرایة بحواله علل متنا ہیة من طریق دارقطنی کتاب الصلوٰۃ مکتبہ اسلامیہ ریاض ۲/ ۱۹ کنز العمال الباب الخامس قرأۃ الماموم مطبوعہ مکتبۃ التراث اسلامی بیروت ۸/ ۲۸۶) محمد ایضا اخبرنا داؤد بن قیس الفراء ثنا محمد بن عجلان ان عمر بن الخطاب رضی اﷲ تعالٰی عنہ قال لیت فی فم الذی یقرأ خلف الامام حجرا يعنی حضرت امیر المومنین فاروق اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایا کاش جوشخص امام کے پیچھے قرأت کرے اُسکے منہ میں پتھر ہو(مؤطاللامام محمد باب القرأۃ فی الصلوٰۃ خلف الامام مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور ص ۱۰۲) محمد ایضااخبرنا داؤد بن قیس الفراء المدنی اخبرنی بعض ولد سعد بن ابی وقاص انہ ذکرلہ ان سعدا رضی اﷲ تعالٰی عنہ قال وددت ان الذی یقرأ خلف الامام فی فیہ جمرۃ يعنی سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے کہ افاضل صحابہ و عشرہ مبشرہ و مقربانِ بارگاہ سے ہیں منقول ہے انھوں نے فرمایا میرا جی چاہتا ہے کہ امام کے پیچھے پڑھنے والے کے منہ میں انگارہ ہو (مؤطاللامام محمد باب القرأۃ فی الصلوٰۃ خلف الامام مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور ص۱۰۱)حضور اعلی حضرت امام اہلسنت فاضل بریلوی عليه الرحمه تحریر فرماتے ہیں مطلقاً کسی نماز کی کسی رکعت میں مقتدی کو قرأت اصلاً جائزنہیں قطعاً خاموش کھڑا رہے درمختار میں ہے المؤتم لايقرأ مطلقا ولا الفاتحة في السرية اتفاقا بل يسمع إذا جهر ينصت إذا اسر ترجمه مقتدی مطلقاً قرأت نہ کرے نہ جہری نماز میں نہ سری نماز میں اور نہ ہی سری نماز میں سورۂ فاتحہ بالاتفاق (یعنی اس پر ائمہ ثلثہ کا اتفاق ہے) بلکہ امام جہرًا پڑھے تو سنے اور جب امام سرًا پڑھے تو مقتدی خاموش رہے(درمختار فصل ويجهر الأمام جلد 1صفحہ 18 مطبوعہ مجتبائی دہلی)( ماخوذ از فتاویٰ رضویہ جلد 6 صفحہ 351تا52مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

والله اعلم ورسوله اعلم باالصواب

کتبہ عبده المذنب عفى عنه فقيرمحمد انعام الحق رضا قادرى

✔️✔️الجواب صحیح مفتی ابراہیم صاحب قبلہ بلرامپور 

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ