Headlines
Loading...

السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ 

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ حضرت میں ایک سرکاری اسکول میں استاد کا کام کرتا ہوں۔اگر کسی دن سکول نہ جا پاؤں تو بھی گورنمنٹ تنخواہ دے دیتی ہے جو حلال کی کمائی نہیں ہے۔۔۔۔اس کے علاوہ مسلہ یہ ہے کہ جب سکول بند رہتا ہے اور ہم کام نہیں کرتےاس دن کی تنخواہ بھی گورنمنٹ دیتی ہے جیسے ایتوار،سرکاری چھٹی یا سردیوں کے موسم کی چھٹیاں۔کیا یہ جائز ہے


المستفتی ارشاد احمد جموں کشمیر


وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 


الجواب بعون الملک الوہاب

اصل مسئلہ تو یہی ہے کہ جس کام کے لئے مامور ہو اور وہ کام نہ کرے تو وہ اس دن کی تنخواہ کا حقدار نہیں لیکن ایسی چھٹیاں جن کا سوال میں ذکر ہے وہ عادۃ مروج ہوں یا آمر نے ایسی چھٹیاں روا رکھی ہیں تو ان ایام کی تنخواہ لینا بلا شبہ جائز ہیں جیساکہ سرکار اعلی حضرت قدس سرہ رقمطراز ہیں اصل کلی شرعی یہ ہے کہ اجیر خاص پر حاضر رہنا اور اپنے نفس کو کار مقرر کے لئے سپرد کرنا لازم ہے جس دن غیر حاضر ہوگا اگرچہ مرض سے اگرچہ اور کسی ضرورت سے اس دن کے اجر کا مستحق نہیں مگر معمولی قلیل تعطیل جس قدر اس صیغہ میں معروف و مروج ہو عادۃ معاف رکھی گئی ہے اور یہ امر باختلاف حاجت مختلف ہوتا ہے درس وتدریس کی حاجت روزانہ نہیں بلکہ طلبہ بلا تعطیل ہمیشہ پڑھے جائیں تو قلب اس محنت کا متحمل نہ ہو لہذا ہفتہ میں ایک دن یعنی جمعہ اور کہیں دو دن منگل جمعہ تعطیل ٹھہری اور رمضان المبارک میں مطالعہ کرنا سبق پڑھنا یاد کرنا دشوار ہے وقد قال سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان القلب اذا اکرہ عمی کہ ہمارے آقا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے کہ جبر کی صورت میں دل بینا نہیں رہتا لہذا اسی صیغہ رمضان مبارک کی چھٹی بھی معمول ہوئی (فتاویٰ رضویہ ج ۱۶ص ۲۰۹،۲۱۰) " سوال میں گرمی،جاڑے اور ہفتہ والی چھٹیاں عادۃ معروف ومروج ہیں لہذا ان ایام کی تنخواہیں لینا درست ہیں البتہ سوال میں کسی دن اسکول نہ جا پاؤں سے مراد اگر یوم تعطیل نہ ہو جیسا کہ یہی مفہوم ہے تو گورنمنٹ اپنے عملہ کو سال میں ۱۶ چھٹیاں دیتی ہے جسے رخصت اتفاقی یا CL کے نام سے جانا جاتا ہے ان ایام کی تنخواہیں لینا بھی درست کہ آمر ہی کیطرف سے رخصت ہے ہاں اگر نہیں گئے اور حاضری بھی بنا لی اپنا CL بچا لیا یہ سوچ کر کہ سال کے اخیر میں لونگا تو ایسی صورت میں ضرور اس دن کی تنخواہ جائز نہ ہوگی اور فتاوی فقیہ ملت میں بحوالہ فتاویٰ رضویہ وشامی ہے چھٹی کے دنوں میں اگرچہ مدرسین سے کوئی کام نہیں لیا جاتا مگر وہ ان دنوں کی تنخواہ پانے کے مستحق ہیں(دوم ص۲۲۹)

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب


کتبہ محمد مزمل حسین نوری مصباحی کشنگنج

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ