Headlines
Loading...
Gumbade AalaHazrat

سوال
  کیا فرماتے ہیں علمائے اہلسنت وجماعت اس مسئلہ کے بارے میں کہ گھوڑے کا گوشت کھانا کیسا ہے؟ ایک مفتی صاحب نے اپنی ایک تقریر میں بیان فرمایا کہ گھوڑے کا گوشت کھانے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عطا کریں کرم ہوگا آپ کا زبیر احمد اسمعیلی شراوستی

       جواب

گھوڑے کا گوشت کھانا جائز نہیں یہاں تک کہ مکروہ تحریمی کہا گیا ہے" سرکار اعلیٰحضرت محقق بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں" صاحبین کے نزدیک حلال ہے اور امام مکروہ فرماتے ہیں قول امام پر فتویٰ ہوا کہ کراہت تنزیہی ہے یا تحریمی اور اصح وراجح کراہت تحریم ہے "گھوڑے کے گوشت کے مسئلہ میں علمائے کرام کا عظیم معرکہ ہے کہ اور تصحیح بھی مختلف ہے کراہت امام صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے پس مکمل احتراز میں بہتری ہے "اور آگے فرماتے ہیں ہمارے امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مذہب میں گھوڑا مکروہ تحریمی ہے یعنی قریب بحرام

(فتاویٰ رضویہ شریف ج 20 ص 310 رضافاؤنڈیشن)
اور سرکار صدر الشریعہ محقق امجد علی رضوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں گھوڑے کے متعلق روایتیں مختلف ہیں یہ آلۂ جہاد ہے اس کے کھانے میں تقلیل آلۂ جہاد ہوتی ہے لہذا نہ کھایا جائے "اھ

(بہار شریعت ج 3 ح 15 حلال و حرام جانوروں کا بیان ص 324 مکتبہ دعوت اسلامی)
اگر مفتی صاحب سے مسئلہ بتانے میں غلطی ہوئ اہل علم ہے خطا ہوگئ تو ان پر لازم ہے کہ اپنے مسئلہ سے رجوع کرلیں اور صحیح مسئلہ بیان کرے اور اگر مفتی صاحب صرف نام کے مفتی ہے مسئلہ بتانے کا حق نہیں رکھتے ہے اور بغیر علم کے فتویٰ دیتے ہے تو ان پر لازم ہے کہ توبہ و استغفار کرے اور آئندہ بغیر علم کے فتویٰ دینے سے احتراز کرے" سرکار اعلیٰ حضرت محقق بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں "جھوٹا مسئلہ بیان کرنا سخت شدید گناہ کبیرہ ہے اگر قصداً ہے تو شریعت پر افترا ہے اور شریعت پر افترا اللہ عزوجل پر افترا ہے اور اللہ عزوجل فرماتا ہے ان الذين يفترون علي الله الكذب لا يفلحون وہ جو اللہ پر چھوٹ افترا کرتے ہیں فلاح نہ پائیں گے اور اگر بے علمی سے ہے تو جاہل پر سخت حرام ہے کہ فتویٰ دے حدیث شریف میں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں من افتي بغير علم لعنته ملٰئكةالسماء والارض جو بغیر علم کے فتویٰ دے اس پر آسمان وزمین کے فرشتے لعنت کرتے ہیں

(کنزالعمال ج 10 ص 193 )
اور دوسری حدیث شریف میں ہے اجرأكم علي الفتيا اجرأكم علي النار یعنی تم میں جو شخص فتویٰ دینے پر زیادہ جرأت کرتا ہے وہ دوزخ کی آگ پر زیادہ دلیر ہے

(کنزالعمال ج 10 ص 187 )
ہاں اگر مفتی صاحب سے اتفاقاً سہو واقع ہوا اور اس نے اپنی طرف سے بے احتیاطی نہ کی اور غلط جواب صادر ہوا تو مواخذہ نہیں مگر فرض ہے کہ مطلع ہوتے ہی فوراً اپنی خطا ظاہر کرے اس پر اصرار کرے تو پہلی شق یعنی افترا میں آجائے گا

اھ( فتاویٰ رضویہ شریف ج 23 ص 711 رضافاؤنڈیشن ")اور ایساہی فتاویٰ فقیہ ملت ج 2 ص 217 " اور فتاویٰ مرکز تربیت افتا ج 1 ص 209 پر ہے)
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 

کتبہ محمد ریحان رضا رضوی

فرحاباڑی ٹیڑھاگاچھ وایہ بہادر گنج ضلع کشن گنج بہار انڈیا

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ