سوال
ایک مسلہ ہے کہ کیا انگلی چٹخانے سے وضو مکروہ ہو جاتا ہے کیا دوبارہ وضو بناۓ بغیر نماز پڑھ نا یا قرآن مجید چھونا کیسا ہے
جواب عنایت فرماٸیں
سائل محمد محفوظ رضا بمقام شیر گھا ٹی
جواب
انگلیاں چٹخانے سے وضو پر کوٸی فرق عاٸد نہیں ہوتا ہے لیکن
جو شخص نماز میں ہو تو دوران نماز انگلیاں چٹکانا مکروہ تحریمی ہے ایسی نماز کا اعادہ کرنا لازم ہے
اور توابع نماز یعنی جو شخص مسجدمیں بیٹھ کر نماز کا انتظار کر رہا ہو یا مسجد جا رہا ہو اسکے لئے انگلیاں چٹخانا شرعا مکروہ ہے، اور جو شخص خارج نماز یعنی نماز میں نہ ہو اور نہ ہی نماز کے انتظار میں ہو اس کے لئے بھی بغیر حاجت کے انگلیاں چٹخانا مکرو تنزیہی ہے یہ حکم مسجد غیر مسجد ہر جگہ کو شامل ہے
خارجِ نَماز میں کسی حاجت کے سبب مَثَلاًتھکن کے وقت انگلیوں کو راحت پہنچانے کیلئے اُنگلیاں چٹخانا مُباح یعنی بِلا کسی کراہت جائز و رو ہے
چنانچہ
احادیث کریمہ میں ہے
ابنِ ماجہ کی روایت ہے کہ تاجدار کاٸنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرما یا
لا ترفع اصابعک و انت تصلی یعنی نَماز کی حالت میں اپنی اُنگلیاں نہ چٹخایاکرو
دوسری روایت ہے
کہ حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے منع فریایا کہ کوٸی شخص اپنی انگلیاں چٹخاۓ اس حال میں کہ وہ مسجد میں نَماز کے انتظار میں بیٹھا ہو
تسری روایت میں ہے
کہ حضور انور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے
نَماز کیلئے جاتے ہوئے اُنگلیاں چٹخانے سے مَنع فرمایا
(الفتاوی الشامیة مطلب اذا تردد الحکم بین سنة و بدعة کان ترک السنة اولی المجلد الثانی الصفحة 353 مطبوعہ دار الکتاب دیوبند)
چوتھی روایت ہے
کہ حضور انور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوٸی شخص اچھی طرح وضو کرکے مسجد کے قصد سے نکلے تو وہ ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں نہ ڈالے کہ وہ نماز میں ہے
(بخاری کتاب الاذان باب اذا لم یتم الرکوع الرقم 8791)
ان احادیثِ مبارَکہ سے یہ تین اَحکام ثابت ہوئے نَماز کے دَوران انگلیاں چٹخانہ مکروہِ تحریمی ہے
اورتَوابِعِ نَماز میں مَثَلاً نَماز کیلئے جاتے ہوئے، نَماز کااِنتظار کرتے ہوئے بھی اُنگلیاں چٹخانا مکروہ ہے
خارجِ نَماز میں بِغیر حاجت کے اُنگلیاں چٹخانا ناپسندیدہ عمل ہے
خارجِ نَماز میں کسی حاجت و ضرورت کی بنا پر مَثَلاً اُنگلیوں کو آرام دینے کیلئے اُنگلیاں چٹخانا مُباح شرعا کوٸی قباحت و کراہت نہیں ہے
فقیہ اسلام علامہ علاٶالدین حصکفی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ
و فرقة الاصابع و تشبیکھا و لو منتظرا لصلوة او ماشیا الیھا للنھی و لا یکرہ خارجھا
(الدر المختار کتاب الصلوة باب ما یفسد الصلوة و ما یکرہ فیھا المجلد الثانی الصفحة 353 مطبوعہ دار الکتاب دیوبند)
خاتم المحققین علامہ سید شاہ ابن عابدین الشامی قدس سرہ النورانی مذکورہ عبارات کے تحت رقم کرتے ہیں کہ
قوله: وفرقعة الأصابع هو غمزها أو مدها حتى تصوت، وتشبيكها هو أن يدخل أصابع إحدى يديه بين أصابع الأخرى، بحر. قوله: للنهي هو ما رواه ابن ماجه مرفوعاً: «لاتفرقع أصابعك وأنت تصلي»." وروى في المجتبى حديثاً: «أنه نهى أن يفرقع الرجل أصابعه وهو جالس في المسجد ينتظر الصلاة وفي رواية: وهو يمشي إليها وروى أحمد وأبو داود وغيرهما مرفوعاً: إذا توضأ أحدكم فأحسن وضوءهو ثم خرج عامداً إلى المسجد فلا يشبك بين يديه فإنه في صلاة" ونقل في المعراج الإجماع على كراهة الفرقعة والتشبيك في الصلاة. وينبغي أن تكون تحريميةً للنهي المذكور، حلية وبحر، قوله: ولا يكره خارجها لحاجة المراد بخارجها ما ليس من توابعها؛ لأن السعي إليها والجلوس في المسجد لأجلها في حكمها كما مر؛ لحديث الصحيحين لا يزال أحدكم في صلاة ما دامت الصلاة تحبسه وأراد بالحاجة نحو إراحة الأصابع، فلو لدون حاجة بل على سبيل العبث كره تنزيهاً، والكراهة في الفرقعة خارجها منصوص عليها، وأما التشبيك فقال في الحلية: لم أقف لمشايخنا فيه على شيء، والظاهر أنه لو لغير عبث بل لغرض صحيح، ولو لإراحة الأصابع لا يكره، فقد صح عنه صلى الله عليه وسلم أنه قال:
المؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضاً وشبك أصابعه فإنه لإفادة تمثيل المعنى، وهو التعاضد والتناصر بهذه الصورة الحسية
(رد المحتار کتاب الصلوة باب ما یفسد الصلوة و ما یکرہ فیھا مطلب اذا تردد الحکم بین سنة و بدعة کان ترک السنة اولی المجلد الثانی الصفحة 353 مطبوعہ دار الکتاب دیوبند)
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ احوج الناس الی شفاعة سید الانس والجان مُحَمَّد قاسم القادری نعیمی اشرفی چشتی غفرلہ اللہ القوی
خادم غوثیہ دار الافتا صدیقی مارکیٹ کاشی پور اتراکھنڈ
مٶرخہ 11 ذی القعدہ 1442 ھ
0 Comments:
براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ