Headlines
Loading...
Gumbade AalaHazrat

سوال
  کیا فرماتے ہیں علماء اکرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کُچھ لوگوں کا ماننا ہیں اورنگ زیب عالمگیر رحمت اللہ علیہ کوئی ولی نہی جواب سے نوازے میں انکو بول سکو المستفی ۔۔۔ محمد عالمگیر انصاری بنارس

       جواب

سیدنا حضرت اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ تعالی علیہ بلاشبہ اللہ کے بہت بڑے ولی ہیں علماء کی ایک کثیرجماعت آپ کے عہد سے لے کر آج تک آپ کے ولایت کو تسلیم کرتی رہی ہے اس لئے کہ ولایت کے تمام اوصاف آپ میں بدرجہ اتم موجود تھے اور وہ لوگ جوآپ کی ولایت کے منکر ہیں وہ جھوٹے مکار کذاب مفتری ہیں دین سے غافل و گمراہ و شقی القلب ہیں سب سے پہلے انہیں ولی کا معنی و مفہوم و مطلب جاننا چاہیے ولی ولاء سے بناہے جس کا معنی قرب ا ور نصرت ہےولی اللہ وہ ہے جو فرائض کی ادائیگی سےاللہ کا قرب حاصل کرے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مشغول رہے اور اس کا دل اللہ تعالیٰ کے نورِ جلال کی معرفت میں مستغرق ہو ،جب دیکھے قدرتِ الٰہی کے دلائل کو دیکھے اور جب سنے اللہ کی آیتیں ہی سنے اور جب بولے تو اپنے رب کی ثناہی کے ساتھ بولے اور جب حرکت کرے، اطاعت الٰہی میں حرکت کرے اور جب کوشش کرے تو اسی کام میں کوشش کرے جو قربِ الٰہی کاذریعہ ہو اللہ کے ذکر سے نہ تھکے اور چشمِ دل سے خدا کے سوا غیر کو نہ دیکھے۔ یہ صفت اولیاء کی ہے بندہ جب اس حال پر پہنچتا ہے تواللہ اس کا ولی وناصر اور معین و مددگارثابت ہوتاہے۔ جیساکہ قرآن شریف میں ہے الَااِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚۖ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَؕ سن لو! بیشک ا للہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہےاور نہ کچھ غم وہ جو ایمان لائے اور پرھیزگاری کرتےہیں

کنزالایمان س یونس آیت ٦٢۔٦٣
لفظ ولی کی تفسیر میں امام محمد المحلی علیہ الرحمہ تحریرفرماتےہیں الاان اولیإ ای احبإ اللہ واعدإنفوسھم فان الولایة ہی معرفةاللہ و معفرفةنفوسھم فمعرفةاللہ رویتہ بنظرالمحبةومعرفةالنفس رویتھابنظرالعداوةعندکشف غطإاحوالھاواوصافھافاذاعرفتھاحق المعرفةوعلمت انہاعدوةللہ ذلک وعالجتھابالمعاندة و المکایدةامنت مکرہاوکیدھا و مانظرت الیھابنظر الشفقةو الرحمة

تفسیرجلالین صفحہ١٧٦حاشیہ نمبر٥ (مجلس برکات مبارکپور)
حضرت اورنگزیب رضی اللہ تعالی عنہ مذکورہ تفسیرات و توضیحات کے مظہر ہیں آپ سلطان الھند ہونے کے باوجود حافظِ قرآن عالم دین عادل متقی پرہیز گار بھی ہیں جن کے ساۓکرم میں فتاویٰ عالمگیری المعروف فتای ھندیہ جیسی عظیم اور جلیل القدر زخیم کتاب مرتب ہوٸی آپ اپنے وقت کے بزرگوں کے بزرگ عالموں کا عالم ولیوں کے ولی مجدد وقت بھی ہیں

نشرطی التعریف ص٣٥
میں ہے فالعلما۶ ھم ورثة الانبیإ وھم قدوة الاتقیإ بل صفوة الاولیإ پس علماء ہی پیغمبروں کے وارث ہیں علماء ہی پرھیزگاروں کے امام ہیں بلکہ علماء ہی اللہ کے چنے ہوئے اولیاء ہیں امام نووی علیہ الرحمہ اپنی کتاب التبیان میں لکھتے ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ و امام شافعی رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا ان لم یکن العلمإ اولیإ اللہ فلیس للہ ولی اگر علماء اللہ کے ولی نہیں ہیں تو اللہ کا کوئی ولی نہیں ہے (ایضا) اور حضرت اورنگزیب کی عظمت و رفعت و تقوی و طہارت پرعلماۓ اکابرین اہل سنت نے گواہی دی ہے ۔۔۔۔ ھو المطیم علی العدل والشجاعة والندی والمفطورتقنہ من الذھد والورع و التقویٰ امیرالمٶمنین ورٸیس المسلمین امام الغزاة و راس المجاھدین ابوالظفر محی الدین محمد اورنگ زیب عالمگیر بادشاہ غازی

فتاویٰ عالمگیری ، المجلدالاول ، ص٢ (دارالکتب العلمیة بیروت لبنان)
لہذا صورت مسؤلہ میں جو لوگ اس طرح کی حماقت بھری باتیں کرتے ہیں ان کو چاہئے کہ اپنے قول سے رجوع کریں ورنہ گمراہ تو ہیں ہی ھوسکتا ہے خاتمہ علی الخیر مشکل ثابت ہو کیونکہ حدیث میں یہ بھی ہے عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: "إِنَّ اللَّهَ قَالَ: مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ وَلَئِنْ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ الْمُؤْمِنِ يَكْرَهُ الْمَوْتَ وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ ترجمہ و مفہوم ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اور کوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے (یعنی فرائض مجھ کو بہت پسند ہیں جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ) اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے۔ وہ تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور مجھ کو بھی اسے تکلیف دینا برا لگتا ہے

صحیح البخاری ، المجلدالثانی ، باب التواضع ، ص ٩٦٣ مجلس برکات مبارکپور)
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 

کتبہ عبیداللہ حنفی بریلوی

خادم مدرسہ دارارقم محمدیہ میر گنج بریلی شریف

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ