Headlines
Loading...
اللہ تعالیٰ کو حاضر وناظر کہنا چاہئے یا نہیں

اللہ تعالیٰ کو حاضر وناظر کہنا چاہئے یا نہیں

Gumbade AalaHazrat

سوال
  کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کیا اللہ تعالیٰ کو حاضر وناظر کہنا چاہئے یا نہیں جس طرح حضور کو حاضر و ناظر کہتے ہیں جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی سائل محمد ضیاء المصطفیٰ رضوی ضلع گیا بہار

       جواب

یہ بات یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا سے اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تو حاضر و ناظر ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر نہیں کہہ سکتے کیونکہ حاضر و ناظر کے جو لغوی اور حقیقی معنی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق نہیں
میرے آقا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں حاضر و ناظر کا اِطلاق بھی باری عَزَّوَجَلَّ پر نہ کیا جائے گا۔ علماءِ کرام کو اس کے اطلاق میں یہاں تک حاجت ہوئی کہ اس (کا اطلاق کرنے والے) پر سے نفیٔ تکفیر فرمائی (حوالہ فتاویٰ رضویہ، کتاب الشتی، عروض وقوافی، ج ۲۹ ص رضا فائونڈیشن لاہور)
اور میرے آقا اعلی حضرت ایک اور دوسرے مقام پر فرماتے ہیں ’’اُسے (یعنی اللہ تعالیٰ کو) حاضر و ناظر بھی نہیں کہہ سکتے، وہ شہید و بصیر ہے، حاضر و ناظر اس کی عطا سے اُس کے محبوب عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ( حوالہ فتاویٰ رضویہ، عقائد وکلام ودینیات، ۲۹ج ص۳۳۳ رضا فائونڈیشن لاہور) بے شک ہر چیز اللہ عزوجل پر عیاں ہے اور وہ ہر چیز کو دیکھتا بھی ہے ، لیکن اللہ عزوجل کی ان صفات کو بیان کرنے کے لیے ”حاضر و ناظر “کے الفاظ استعمال نہیں کر سکتے ، کیونکہ ایک تو یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے نہیں ہیں اور دوسرا یہ کہ ان لفظو ں کے عربی لغت میں جو معانی بیان کیے گئے ہیں ، وہ اللہ عزوجل کی شان کے لائق نہیں ہیں ۔ اسی لیے علماءِ کرام فرماتے ہیں کہ ان الفاظ کا اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال منع ہے ، لہٰذا اللہ عزوجل کی ان صفات کو بیان کرنے کے لیے ”حاضر و ناظر“ کے بجائے ” شہید و بصیر“ کہاجائے
جیسا کہ اللہ عزوجل نے خود قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے اِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ ترجمہ کنز الایمان:بیشک ہر چیز اللہ کے سامنے ہے (سورۃ حج ، آیت نمبر 17)
ایک اور جگہ ارشادِباری تعالیٰ ہے اِنَّ اللہَ سَمِیۡعٌۢ بَصِیۡرٌ ترجمہ کنز الایمان: بیشک اللہ سنتا ، دیکھتا ہے (سورۃ حج ، آیت نمبر 75)
اور فتاوی فیض الرسول میں ہے اگر حاضر و ناظر بہ معنی شہید و بصیر اعتقاد رکھتے ہیں ۔ یعنی ہر موجود اللہ تعالیٰ کے سامنے ہے اور وہ ہر موجود کو دیکھتا ہے ، تو یہ عقیدہ حق ہے ، مگر اس عقیدے کی تعبیر لفظِ حاضر و ناظر سے کرنا یعنی اللہ تعالیٰ کے بارے میں حاضر و ناظر کالفظ استعمال کرنا نہیں چاہیے ، لیکن پھر بھی کوئی شخص اس لفظ کو اللہ تعالیٰ کے بارے میں بولے ، تو وہ کفر نہ ہوگا (فتاوی فیض الرسول، جلد1، صفحہ3، مطبوعہ لاھور)
اور فتاوی شرح بخاری شریف میں ہے اللہ عزوجل کو حاضر و ناظر کہنے والا کافر تو نہیں ، مگر اللہ عزوجل کو حاضر و ناظر کہنا منع ہے کہ اللہ عزوجل کے اسما توقیفی ہیں یعنی شریعت نے جن اسما کا اطلاق باری تعالیٰ پر کیا ہے ، اسی کا اطلاق درست اور جن اسما کا اطلاق نہیں فرمایا ، ان سے احتراز چاہیے (فتاوی شارح بخاری، جلد 1،صفحہ 305، مطبوعہ کراچی)

یہاں پر حوالہ اور کتاب کا صفحہ نمبر وغیرہ لکھیں
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 

کتبہ الفقیر محمد ثمیررضاعلیمی عفی عنہ

مقام بسنت تھانہ اورائی ضلع مظفر پور بہار الہند

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ