سوال
کیا فرماتے ھیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسجد
میں زکوة ، صدقہ، فطرہ دینا کیسا ھے ؟
برائے کرم جواب حدیث و قرآن کی روشنی میں عنایت فرمائیں ۔ عین نوازش ہو گی
سائل کا نام
المستفتی فقیر قادری محمدشاداب رضابرکاتی رضوی( خادم ۔دارالعلوم حاجی علی رفیع نگر گوونڈی ممبئی 43)
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ہدایت الحق بالصواب
زکوٰۃ وفطرہ اور دیگر صدقات واجبہ یہ فقراء ومساکین کا حق ہے جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِؕ-فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
زکوٰۃ صرف فقیروں اور بالکل محتاجوں اور زکوٰۃ کی وصولی پر مقرر کئے ہوئے لوگوں اور ان کیلئے ہے جن کے دلوں میں اسلام کی الفت ڈالی جائے اور غلام آزاد کرانے میں اور قرضداروں کیلئے اور اللہ کے راستے میں (جانے والوں کیلئے) اور مسافر کے لئے ہے۔ یہ اللہ کامقرر کیا ہوا حکم ہے اور اللہ علم والا، حکمت والا ہے
سورہ توبہ آیت ٦٠
اور اس کو یعنی زکوٰۃ صدقہ فطر اور صدقۂ واجب مسجد کی ضروریات میں خرچ کرنا صحیح نہیں
حوالہ 👇
فتاویٰ عالمگیری جلد اول صفحہ ١٧٦
میں ہے
الجواب 👇
لا يجوز ان يبنى بالزكوة المسجد و كذا الحج و كل ما لا تمليك فيه
مسجد کی بنیاد رکھنا جائز نہیں
اگر مسجد کی ضروریات میں خرچ کرنا چاہتے ہیں تو اسے کسی غیب آدمی کو دے کر مالک بنا دیں اور وہ اپنی مرضی سے مسجد کی ضروریات میں صرف کرنے کے لیے دے دے تو مسجد کے کسی بھی ضرورت صرف کر سکتے ہیں
حوالہ 👇
فتاویٰ فیض الرسول جلد اول صفحہ ٤٩٢
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
کتبہ ناچیز محمد عمران قادری تنویری غفرلہ
بلرامپور گوندہ
0 Comments:
براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ